Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Ahzaab : 37
وَ اِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْۤ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِ اَمْسِكْ عَلَیْكَ زَوْجَكَ وَ اتَّقِ اللّٰهَ وَ تُخْفِیْ فِیْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِیْهِ وَ تَخْشَى النَّاسَ١ۚ وَ اللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰىهُ١ؕ فَلَمَّا قَضٰى زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَهَا لِكَیْ لَا یَكُوْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْۤ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآئِهِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا١ؕ وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا
وَاِذْ : اور (یاد کرو) جب تَقُوْلُ : آپ فرماتے تھے لِلَّذِيْٓ : اس شخص کو اَنْعَمَ اللّٰهُ : اللہ نے انعام کیا عَلَيْهِ : اس پر وَاَنْعَمْتَ : اور آپ نے انعام کیا عَلَيْهِ : اس پر اَمْسِكْ : روکے رکھ عَلَيْكَ : اپنے پاس زَوْجَكَ : اپنی بیوی وَاتَّقِ اللّٰهَ : اور ڈر اللہ سے وَتُخْفِيْ : اور آپ چھپاتے تھے فِيْ نَفْسِكَ : اپنے دل میں مَا اللّٰهُ : جو اللہ مُبْدِيْهِ : اس کو ظاہر کرنے والا وَتَخْشَى : اور آپ ڈرتے تھے النَّاسَ ۚ : لوگ وَاللّٰهُ : اور اللہ اَحَقُّ : زیادہ حقدار اَنْ : کہ تَخْشٰىهُ ۭ : تم اس سے ڈرو فَلَمَّا : پھر جب قَضٰى : پوری کرلی زَيْدٌ : زید مِّنْهَا : اس سے وَطَرًا : اپنی حاجت زَوَّجْنٰكَهَا : ہم نے اسے تمہارے نکاح میں دیدیا لِكَيْ : تاکہ لَا يَكُوْنَ : نہ رہے عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں حَرَجٌ : کوئی تنگی فِيْٓ اَزْوَاجِ : بیویوں میں اَدْعِيَآئِهِمْ : اپنے لے پالک اِذَا : جب وہ قَضَوْا : پوری کرچکیں مِنْهُنَّ : ان سے وَطَرًا ۭ : اپنی حاجت وَكَانَ : اور ہے اَمْرُ اللّٰهِ : اللہ کا حکم مَفْعُوْلًا : ہوکر رہنے والا
اور جب تم اس شخص سے جس پر خدا نے احسان کیا اور تم نے بھی احسان کیا (یہ) کہتے تھے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دو اور خدا سے ڈر اور تم اپنے دل میں وہ بات پوشیدہ کرتے تھے جس کو خدا ظاہر کرنے والا تھا اور تم لوگوں سے ڈرتے تھے حالانکہ خدا اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو پھر جب زید نے اس سے (کوئی) حاجت (متعلق) نہ رکھی (یعنی اس کو طلاق دے دی) تو ہم نے تم سے اس کا نکاح کردیا تاکہ مومنوں کے لئے انکے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (کے ساتھ نکاح کرنے کے بارے) میں جب وہ ان سے (اپنی) حاجت (متعلق) نہ رکھیں (یعنی طلاق دے دیں) کچھ تنگی نہ رہے اور خدا کا حکم واقع ہو کر رہنے والا تھا
اور جبکہ آپ حضرت زید سے فرما رہے تھے (جن کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی توفیق عطا فرمائی اور آپ نے بھی ان کو آزاد کر کے ان پر انعام فرمایا) کہ اپنی بیوی کو طلاق مت دو اور حق سے ڈرو اور آپ زید کے طلاق دینے کی صورت میں اپنے دل میں حضرت زینب سے نکاح کرنے کے ارادہ کو چھپائے ہوئے تھے جس کو اللہ تعالیٰ بذریعہ قرآن حکیم ظاہر کرنے والا تھا اور آپ لوگوں کے طعن کا بھی اندیشہ کر رہے تھے اور ڈرنا تو آپ کو اللہ ہی سے زیادہ مناسب ہے۔ چناچہ جب حضرت زید کا حضرت زینب سے جی بھر گیا اور انہوں نے ان کو طلاق دے دی اور طلاق کی عدت بھی پوری ہوگئی تو ہم نے حضرت زینب سے آپ کا نکاح کرا دیا تاکہ اس کے بعد مسلمانوں کو اپنے مونہہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے نکاح کرنے کے بارے میں کسی قسم کی کوئی تنگی نہ رہے، جبکہ وہ عورتیں ان کی موت یا طلاق کی عدت پوری کرچکیں اور اللہ تعالیٰ کا یہ حکم تو ہو کر ہی رہنے والا تھا۔ کہ رسول اکرم ﷺ کی حضرت زینب سے شادی ہوجائے۔ شان نزول : وَتُخْــفِيْ فِيْ نَفْسِكَ (الخ) امام بخاری نے حضرت انس سے روایت کیا ہے یہ آیت مبارکہ حضرت زینب بنت جحش اور زید بن حارثہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ امام حاکم نے حضرت انس سے روایت کیا ہے کہ حضرت زید بن حارثہ رسول اکرم کی خدمت میں حضرت زینب کی شکایت کرنے کے لیے آئے آپ نے فرمایا کہ اپنی بیوی کو اپنی زوجیت میں رہنے دو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ امام مسلم اور احمد و نسائی نے روایت کیا ہے کہ جب حضرت زینب کی عدت پوری ہوگئی تو رسول اکرم نے حضرت زید سے فرمایا کہ تم میرا پیغام نکاح زینب کو پہنچاؤ، حضرت زید ان کے پاس پہنچے اور ان کو اس چیز کی اطلاع دی، حضرت زینب نے فرمایا کہ میں جب تک اپنے پروردگار سے مشورہ نہ کرلوں کچھ نہیں کہہ سکتی یہ کہ وہ اپنی جائے نماز پر کھڑی ہوگئیں اس کے بعد قرآن کریم کی آیت نازل ہوگئی اور رسول اکرم بغیر اجازت کے حضرت زینب کے پاس تشریف لے گئے اور صحیح یاد ہے کہ جب رسول اکرم ان کے پاس تشریف لے گئے تو آپ نے ہمیں گوشت روٹی کھلایا تھا کھانے کے بعد سب باہر چلے آئے صرف چند آدمی مکان میں باتیں کرتے رہ گئے۔ مجبورا رسول اکرم باہر تریف لے گئے میں بھی آپ کے ساتھ ہولیا چناچہ رسول اکرم تمام ازواج مطہرات کے حجروں کا گشت لگانے لگے پھر حضور کو لوگوں کے چلے جانے کی اطلاع دی، بہرحال حضور واپس تشریف لاکر حجرہ میں داخل ہوگئے اور میں بھی ساتھ داخل ہونا چاہتا تھا مگر حضور نے میرے اور اپنے درمیان پردہ چھوڑ دیا اور آیت حجاب نازل ہوئی اور اس کے ذریعے سے جو نصیحت ہوتی تھی وہ لوگوں کو کردی۔ یعنی اے ایمان والو نبی کے گھروں میں مت جایا کرو۔ اور امام ترمذی نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم نے جب حضرت زینب سے شادی کی تو لوگ کہنے لگے کہ آپ نے اپنے لڑکے کی بیوی سے شادی کرلی۔ اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی یعنی محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں۔
Top