بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Al-Anbiyaa : 1
وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰىۙ
وَالنَّجْمِ : قسم ہے تارے کی اِذَا هَوٰى : جب وہ گرا
تارے کی قسم جب وہ غروب ہوا۔
لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 18 ھوی نیچے اترا، غائب ہوا۔ عوی راہ بھٹک گیا۔ ماینطق وہ نہیں بولتا۔ شدید القوی بڑی طاقتوں والا۔ ذومرۃ زور دار۔ الافق الاعلی بلند کنارا۔ دنا قریب ہوا۔ تدلی وہ آگے بڑھا، لٹک گیا۔ قاب مقدار۔ قوسین دو کمانیں۔ تمرون تم جھگڑتے ہو۔ نزلۃ اترنا۔ سدرۃ بیری کا درخت۔ یغشی وہ ڈھانپ لیتا ہے۔ مازاغ نہیں لڑا۔ ماطغی حد سے نہ بڑھا۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 18 ستارے غائب ہوجانے کے بعد جب سورج نکلتا ہے تو ہر طرف اس کی کرنوں سے دنیا جگمگا اٹھتی ہے۔ درختوں پر ایک پھبن اور ہر چیز پر رونق آجاتی ہے۔ اندھیرے سمٹ جاتے ہیں اور سورج کی روشنی کے سامنے ہر روشنی ماند پڑجاتی ہے۔ اسی طرح کفر اور ظلم کے اندھیروں میں بھٹکنے والوں لوگوں کی ہدایت کے لئے اللہ کے پیغمبر آتے رہے اور توحید و رسالت کی تعلیمات اور اللہ کے دین کی روشنی سے دنیا کو منور کرتے رہے لیکن جب اللہ نے اپنے آخری نبی اور آخری محبوب رسول حضرت محمد ﷺ کو بھیجا تو اس روشنی کی تکمیل ہوگئی اور ساری دنیا کے روحانی اندھیرے دور ہوگئے اور اب یہ شمع رسالت قیامت تک اسی طرح اپنی روشنی بکھیرتی رہے گی۔ فرمایا کہ ستارے کی قسم جس طرح یہ ستارے چاند اور سورج اپنی جگہ پر قا اعدے طریقے سے چلتے ہیں اور ان کی رفتار میں نکلنے اور ڈوبنے میں کبھی کوئی فرق نہیں آتا اور وہ اپنی مستعدی سے اپنی جگہ جم کر چلتے ہیں اسی طرح ہمارے رسول بھی پوری مستعدی اور شان سے اللہ کے احکامات کو پوری دیانت داری سے ساری دنیا تک پہنچا رہے ہیں انہوں نے شب معراج اپنی آنکھوں سے جو کچھ دیکھا اور سنا وہ سورج کی روشنی کی طرف صاف اور واضح تھا جس کے دیکھنے میں نہ تو وہ بھٹکے اور نہ انہوں نے کوئی غلطی کی۔ ۔ فرمایا کہ ہمارے مبحوب نبی پر جو فرشتہ وحی لے کر اترتا ہے (جبرئیل امین) وہ بڑی قوت و طاقت والا، مضبوط و توانا، زور آور، جسمانی اور روحانی طاقتوں کا مالک ہے جس کے چھ سو بازو ہیں۔ اگر وہ اپنی اصلی آواز نکالیں تو لوگوں کے کلیجے پھٹ جائیں۔ ان کی طاقت وق وت کا یہ حال ہے کہ جب انہوں نے اللہ کے حکم سے قوم لوط کی بستیوں کو جڑ سے اکھاڑ کر آسمان تک بلند کیا اور پھر اس قوم کو زمین پر پٹک دیا تو وہ قوم اور اس کی بستیاں اس طرح برباد ہوگئیں کہ اوپر کا حصہ نیچے اور نیچے کا حصہ اوپر آگیا اور پھر سمندر کا پانی ان پر چڑھ دوڑا اور ان کی بستیوں کو سمندر میں غرق کر کے نشان عبرت بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل کے لئے فرمایا ہے کہ وہ کریم ہیں عزت و قوت والے ہیں جن کا اللہ کے ہاں ایک اعلیٰ مقام ہے۔ سب فرشتوں کے مقابلے میں ان کو اللہ کی بارگاہ میں زیادہ قرب اور پہنچ ہے۔ وہ مطاع ہیں یعنی آسمان کے فرشتے بھی ان کی بات ماننے پر مجبور ہیں اور ان کا حکم تسلیم کرتے ہیں جن کے امین اور معتبر ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ اللہ کے اس طاقت ور فرشتے کے سامنے شیطان کی یہ مجال نہیں ہے کہ وہ کسی قسم کی رکاوٹ ڈال سکے لہٰذا یہ اللہ کا کلام کسی شیطان کے ذریعہ نہیں پہنچا کہ آپ کو کاہن کہا جائے۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت جبرئیل کو ان کی اصلی شکل میں دو مرتبہ دیکھا ہے۔ ایک مرتبہ زمین پر اور ایک مرتبہ ساتویں آسمان پر سدرۃ المنتھی کے پاس ۔ ابتدائے وحی کے قویب ایک مرتبہ آپ ﷺ نے حضرت جبرئیل کو ان کی اصلی شکل میں دیکھا کہ وہ ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس وقت آسمان ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ان کے وجود سے بھرا ہوا تھا۔ نبی کریم ﷺ بےہوش ہو کر گر پڑے۔ اس وقت حضرت جبرئیل آپ کے پاس عام انسانی شکل میں آئے تاکہ آپ کو تسلی دے سکیں چناچہ انہوں نے آپ ﷺ کو اٹھایا، تسلی دی اور اتنے قریب ہوگئے کہ حضرت جبرئیل اور نبی کریم ﷺ کے درمیان دو کمانوں سے زیادہ فاصلہ نہ رہا۔ پھر انہوں نے اللہ کے حکم سے جو اس نے چاہا آپ پر وحی نازل کی۔ دوسری مرتبہ شب معراج میں سدرۃ المنتھی کے پاس آپ نے حضرت جبرئیل کو دیکھا کہ وہ رفرف کے لباس میں ہیں اور زمین و آسمان کی فضا کو ان کے وجود نے بھر رکھا تھا۔ ان کے وجود کا پھیلائو چھٹے آسمان سے ساتویں آسمان تک تھا۔ پھر وہ عام شکل میں قریب آئے اور اتنے قریب ہوئے کہ نبی کریم ﷺ اور ان کے درمیان دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا تھا۔ پھر نبی کریم ﷺ کو اس شب معراج میں اللہ کی نشانیاں دکھائی گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آپ نے اس رات کو جو کچھ دیکھا نہ آپ کی آنکھ نے دھوکا کھایا اور نہ آپ کی آنکھ بھٹکی اس طرح اللہ نے اپنی بہت سی نشانیاں دکھا کر ختم نبوت کا تاج آپ کے سر پر رکھ دیا۔ ان آیات کے سلسلہ میں چند باتوں کی وضاحت پیش خدمت ہے۔ (1) اس جگہ اللہ نے ” النجم “ (ستارہ) کی قسم کھا کر نبی کریم کی شان رسالت کو بیان کیا ہے۔ یہ کون سا ستارہ ہے اس سلسلہ میں مفسرین کرام نے مختلف باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ ٭… اس سے صرف ایک ستارہ نہیں بلکہ ستاروں کی جنس مراد ہے یعنی ستاروں کا جھرمٹ، کہکشاں ٭… اس سے شہاب ثاقب مراد ہیں جن کے ذریعہ ان شیاطین کو مار کر بھگایا جاتا ہے جو آسمانوں پر مستقبل کی باتیں سننے کی کو ششک رتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے اعلان نبوت سے پہلے یہ شیاطین آسمانوں پر جا کر فرشتوں کی گفتگو سن لیتے اور پھر آ کر کاہنوں کو بتا دیتے تھے وہ کاہن جنات و شیاطین کی باتوں کو سن کر اور کچھ خود سے گھڑ کر لوگوں کے سامنے مستقبل کی پیشین گوئیاں کردیتے تھے۔ نبی کریم ﷺ کی تشریف آوری کے بعد اللہ نے جنات و شیاطین پر پابندی لگا دی اور اگر کوئی جن یا شیطان آسمان کی طرف بلند ہو کر سننے کی کوشش کرتا تو اس کے پیچھے شہاب ثاقب یعنی آسمانی انگارے برسائے جاتے تھے۔ ٭… بعض مفسرین نے ” النجم “ سے مراد قرآن کریم کی آیتوں اور سورتوں کو لیا ہے۔ ٭… بہرحال ” النجم “ سے ستارے مراد ہوں یا شہاب ثاقب اللہ نے ساتروں کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ جب یہ ستارے ڈوب جاتے ہیں تب ہی صبح ہوتی ہے اور اس سے رات کے اندھیرے سمٹ جاتے ہیں اب نبی کریم ﷺ کی آمد اور قرآن کریم کی آیتوں کے نازل ہونے کے بعد اگر کہیں روشنی ہے تو وہ صرف خاتم الانبیاء ﷺ اور آپ کے لائے ہوئے دین ہی کی ہے۔ (2) اس میں نبی کریم ﷺ کو صاحبکم “ فرمایا یعنی تمہارے رفیق تمہارے ساتھی۔ اس سے مراد یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ جو اس دین اسلام کو لے کر آئے ہیں وہ کہیں اور سے نہیں آئے ہیں۔ یہ وہی ہیں جن کے بچپن ، جوانی اور ادھیڑ عمری کے ایک ایک لمحے سے مکہ کا بچہ بچہ واقف تھا۔ جن کو صادق و امین اور معتبر سمجھا جاتا تھا۔ آج اعلان نبوت کے بعد ان جیسی عظیم ہستی کے متعلق طرح طرح کی نامناسب باتیں کرنا ان کو زیب نہیں دیتا۔ انہوں نے معراج میں جو کچھ دیکھا وہ اللہ کی نشانیاں تھیں۔ جو کچھ آنکھوں سے دیکھا اس میں نہ وہ گمراہ ہیں اور نہ راستے سے بھٹکے ہیں بلکہ جو کچھ انہوں نے دیکھا اور جو کچھ عطا کیا گیا وہ برحق تھا۔ آپ کی شان یہ ہے کہ آپ جو کچھ بھی کہتے ہیں جب تک اللہ کی طرف سے وحی نہیں ہوتی آپ بیان نہیں فرماتے۔ (3) سورة النجم وہ سب سے پہلی سورت ہے جس کا نبی کریم ﷺ نے اعلان فرمایا۔ آپ نے اس کی تلاوت فرمائی۔ اس مجمع میں میں اہل ایمان کے علاوہ کفار و مشرکین بھی تھے جب آیت سجدہ آئی تو آپ نے اور تمام مسلمانوں نے سجدہ آئی تو آپ نے اور تمام مسلمانوں نے سجدہ کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت تمام کفار و مشرکین نے بھی اللہ کے سامنے سجدہ کیا۔ (4) عربوں میں باہمی دوستی کے دو طریقفے تھے ایک تو یہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر دوستی کرتے تھے۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ وہ دونوں شخص اپنی اپنی کمانوں کی لکڑی تو اپنی طرف کرلیتے اور کمان کی ڈور دوسرے کی طرف۔ اس طرح جب دونوں کمانوں کی ڈور مل جاتیں تو یہ اس بات کا اعلان ہوتا تھا کہ دو دشمنوں میں محبت اور قربت ہوگئی ۔ اس قرب کے وقت ان دونوں میں دونوں ” قوسوں “ کے ماپ کا فاصلہ رہتا تھا یعنی تقریباً دو ہاتھ (ایک گز) اس کے بعد ” ادنی “ کہہ کر بتا دیا کہ یہ اس سے بھی زیادہ قریب اور ملا ہوا تھا۔ (5) ساتویں آسمان پر عرش کے نیچے ایک درخت ہے جس کو ” سدرہ المنتھی ‘ کہتے ہیں۔ عربی میں ” سدرہ “ بیری کے درخت کو کہتے ہیں جس کی کیفیت کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو بھی احکامات یا رزق نازل ہوتے ہیں ان کا فیصلہ سدرہ تک پہنچتا ہے وہاں سے جن ملائکہ کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے وہ اس کو لے کر زمین کی طرف لاتے ہیں۔ اسی طرح دنیا میں جتنے انساین اعمال ہیں وہ سدرہ تک پہنچتے ہیں پھر وہاں سے اوپر اٹھائے جاتے ہیں۔ فرمایا کہ اسی سدرہ کے پاس وہ جنت بھی ہے جو اللہ کے نیک بندوں کے رہنے کی باعزت جگہ ہے اس کو ” جنت الماوی “ فرمایا گیا ہے۔ جب نبی کریم ﷺ شب معراج تشریف لائے تو فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ ہم بھی اس رات رسول اللہ ﷺ کی زیارت کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ نے ان کو اجازت دے دی اور وہ تمام فرشتے سدرہ کے درخت اور اس کے ہر پتے پر اس طرح آپ کا انتظار کرنے لگے کہ ان کی جگمگاہٹ سے ایسا لگتا تھا جیسے سونے کے پروانے ایک دوسرے پر گر رہے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں حضرت جبرئیل جیسے مقرب فرشتے نے بھی اگٓے جانے سے یہ کہہ کر معذرت کرلی تھی کہ اے اللہ کے رسول ﷺ اگر میں اس سے آگے ایک قدم بھی جاؤں گا تو اللہ کی تجلی سے میرے پر جل جائیں گے۔ اس جگہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی بہت سی نشانیاں دیکھیں جن کے دیکھنے میں نہ تو آپ کی آنکھ نے دھوکا کھایا اور نہ وہ حد سے آگے بڑھی۔
Top