Tadabbur-e-Quran - Az-Zukhruf : 63
وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ
وَلَمَّا جَآءَ : اور جب لائے عِيْسٰى : عیسیٰ بِالْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیاں قَالَ : اس نے کہا قَدْ جِئْتُكُمْ : تحقیق میں لایاہوں تمہارے پاس بِالْحِكْمَةِ : حکمت وَلِاُبَيِّنَ : اور تاکہ میں بیان کردوں لَكُمْ : تمہارے لیے بَعْضَ الَّذِيْ : بعض وہ چیز تَخْتَلِفُوْنَ فِيْهِ : تم اختلاف کرتے ہو جس میں فَاتَّقُوا اللّٰهَ : پس ڈرو اللہ سے وَاَطِيْعُوْنِ : اور اطاعت کرو میری
اور جب عیسیٰ کھلی نشانیوں کے ساتھ آیا تو اس نے دعوت دی کہ میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں اور تاکہ میں تم پر واضح کر دوں بعض وہ باتیں جن میں تم نے اختلاف کیا ہے۔ تو اللہ سے ڈرو اور میری بات مانو۔
ولما جآء عیسیٰ بالبینت قال قد جئتکم بالحکمۃ ولابین لکم بعض الذی تخلفون فیہ فاتقوا اللہ واطیعون 63 حضرت عیسیٰ کی بعثت کا مقصد یہ حضرت عیسیٰ ؑ کے قمصد بعثت اور ان کی دعوت کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نہایت واضح نشانیوں کے ساتھ آئے اور بنی اسرائیل کو دعوت دی کہ میں تمہارے پاس کوئی نیا دین نہیں بلکہ وہی دین لے کر آیا ہوں جس کی تعلیم حضرت موسیٰ ؑ نے دی۔ البتہ حکمت دین جس سے تم نے اپنے کو محروم کرلیا وہ لے کر آیا ہوں تاکہ تم میں ایمانی زندگی پیدا ہوا اور تاکہ بعض ان اختلافات میں امر حق واضح کروں جن میں تم مبتلا ہوگئے ہو۔ قرینہ دلیل ہے کہ ولابین کا معطوف علیہ محذوف ہے۔ ہم نے اس کی وضاحت کردی ہے۔ یہ امر یہاں واضح رہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کسی نئی شریعت کے داعی نہیں تھے بلکہ وہ تورات ہی کے مصدق تھے البتہ انہوں نے حکمت یعنی روح دین اور مغزدین سے بنی اسرائیل کو آشنا کرنا چاہا لیکن انہوں نے اس کی کوئی قدر نہیں کی۔ بلکہ اپنی اس ظاہر پرستی میں مبتلا رہے جس میں مبتلا تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اصل دین تو ان کے اندر سے غائب ہوگیا البتہ کچھ رسوم رہ گئے جن کو ادا کر کے وہ مطمئن ہوجاتے کہ اللہ اور اس کے دین کے تمام حقوق سے وہ سبکدوش ہوگئے۔ اختلافات کو رفع کرنے والی چیز حکمت ہے اگر دین کی حکمت غائب ہوجائے، صرف رسوم اور الفاظ باقی رہ جائیں تو اس کا ایک لازمی نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ دین کے اندر طرح طرح کے اختلافات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جن کو دور کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ یہود بھی حکمت دین سے محروم ہوجانے کے بعد اسی فتنہ میں مبتلا ہوگئے۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے تعلیم حکمت کے ذریعہ سے ان کے ان مذہبی اختلافات کو دور کرنا چاہا لیکن یہود نے اس حکمت کی قدر نہیں کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے اختلافات برابر بڑھتے ہی رہے یہاں تک کہ وہ اپنے اس انجام کو پہنچ گئے جو ان کی ان ناقدیروں کا لازمی نتیجہ تھا۔
Top