Tafseer Ibn-e-Kaseer - At-Tawba : 1
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ
بَرَآءَةٌ : بیزاری (قطعِ تعلق) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖٓ : اور اس کا رسول اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے عٰهَدْتُّمْ : تم سے عہد کیا مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
(اے اہل اسلام اب) خدا اور اس کے رسول کی طرف سے مشرکوں سے جن سے تم نے عہد کر رکھا تھا بیزاری (اور جنگ کی تیاری) ہے
یہ سورت سب سے آخر رسول ﷺ پر اتری ہے بخاری شریف میں ہے سب سے آخر (آیت یسفتونک الخ،) اتری اور سب سے آخری سورت سورة براۃ اتری ہے۔ اس کے شروع میں بسم اللہ نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ نے امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان ؓ کی اقتدا کر کے اسے قرآن میں لکھا نہیں تھا۔ ترمذی شریف میں ہے کہ حضرت ابن عباس نے حضرت عثمان سے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے آپ نے سورة انفال کو جو مثانی میں سے ہے اور سورة براۃ کو جو مئین میں سے ہے ملا دیا اور ان کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی اور پہلے کی سات لمبی سورتوں میں انہیں رکھیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ بسا اوقات حضور رسول اللہ ﷺ پر ایک ساتھ کئی سورتیں اترتی تھیں۔ جب آیت اترتی آپ وحی کے لکھنے والوں میں سے کسی کو بلا کر فرما دیتے کہ اس آیت کو فلاں سورت میں لکھ دو جس میں یہ یہ ذکر ہے۔ سورة انفال مدینہ شریف میں سب سے پہلے نازل ہوئی اور سورة براۃ سب سے آخر میں اتری تھی بیانات دونوں کے ملتے جلتے تھے مجھے ڈر لگا کہ کہیں یہ بھی اسی میں سے نہ ہو حضور صلی اللہ علیہ کا انتقال ہوگیا اور آپ ﷺ نے ہم سے نہیں فرمایا کہ یہ اس میں سے ہے اس لیے میں نے دونوں سورتیں متصل لکھیں اور انکے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھیں اور سات پہلی لمبی سورتوں میں انہیں رکھا۔ اس سورت کا ابتدائی حصہ اس وقت اترا جب آپ غزوہ تبوک سے واپس آرہے تھے۔ حج کا زمانہ تھا مشرکین اپنی عادت کے مطابق حج میں آکر بیت اللہ شریف کا طواف ننگے ہو کر کیا کرتے تھے۔ آپ نے ان میں خلا ملا ہونا ناپسند فرما کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو حج کا امام بنا کر اس سال مکہ شریف روانہ فرمایا کہ مسلمانوں کو احکام حج سکھائیں اور مشرکوں میں اعلان کردیں کہ وہ آئندہ سال سے حج کو نہ آئیں اور سورة براۃ کا بھی عام لوگوں میں اعلان کردیں۔ آپ کے پیچھے پھر حضرت علی ؓ کو بھیجا کہ آپ کا پیغام بحیثیت آپ کے نزدیکی قرابت داری کے آپ بھی پہنچا دیں جیسے کہ اس کا تفصیلی بیان آرہا ہے۔ انشاء اللہ۔ پس فرمان ہے کہ یہ بےتعلق ہے۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بعض تو کہتے ہیں یہ اعلان اس عہد و پیمان کے متعلق پہچان سے کوئی وقت معین نہ تھا یا جن سے عہد چار ماہ سے کم کا تھا لیکن جن کا لمبا عہد تھا وہ بدستور باقی رہا۔ جیسے فرمان ہے کہ (فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ) 9۔ التوبہ :4) ان کی مدت پوری ہونے تک تم ان سے ان کا عہد نبھاؤ۔ حدیث شریف میں بھی ہے کہ آپ نے فرمایا ہم سے جن کا عہد و پیمان ہے ہم اس پر مقررہ وقت تک پابندی سے قائم ہیں گو اس بارے میں اوراقوال بھی ہیں لیکن سب سے اچھا اور سب سے قوی قول یہی ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ جن لوگوں سے عہد ہوچکا تھا ان کے لیے چار ماہ کی حد بندی اللہ تعالیٰ نے مقرر کی اور جن سے عہد نہ تھا ان کے لیے حرمت والے مہینوں کے گذر جانے کی عہد بندی مقرر کردی یعنی دس ذی الحجہ سے محرم الحرام تک کے پچاس دن۔ اس مدت کے بعد حضور ﷺ کو ان سے جنگ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے جب تک وہ اسلام قبول نہ کرلیں۔ اور جن سے عہد ہے وہ دس ذی الحجہ کے اعلان کے دن سے لے کر بیس ربیع الآخر تک اپنی تیاری کرلیں پھر اگر چاہیں مقابلے پر آجائیں یہ واقعہ سنہ009ھ کا ہے۔ آپ نے حضرت ابوبکر کو امیر حج مقرر کر کے بھیجا تھا اور حضرت علی کو تیس یا چالیس آیتیں قرآن کی اس صورت کی دے کر بھیجا کہ آپ چار ماہ کی مدت کا اعلان کردیں۔ آپ نے ان کے ڈیروں میں گھروں میں منزلوں میں جا جا کر یہ آیتیں انہیں سنا دیں اور ساتھ ہی سرکار نبوت کا یہ حکم بھی سنا دیا کہ اس سال کے بعد حج کے لیے کوئی مشرک نہ آئے اور بیت اللہ شریف کا طواف کوئی ننگا شخص نہ کرے۔ قبیلہ خزاعہ قبیلہ مدلج اور دوسرے سب قبائل کے لیے بھی یہی اعلان تھا۔ تبوک سے آکر آپ نے حج کا ارادہ کیا تھا لیکن مشرکوں کا وہاں آنا ان کا ننگے ہو کر وہاں کا طواف کرنا آپ ﷺ کو ناپسند تھا اس لیے حج نہ کیا اور اس سال حضرت ابوبکر کو اور حضرت علی کو بھیجا انہوں نے ذی المجاز کے بازاروں میں اور ہر گلی کوچے اور ہر ہر پڑاؤ اور میدان میں اعلان کیا کہ چار مہینے تک کی تو شرک اور مشرک کو مہلت ہے اس کے بعد ہماری اسلامی تلواریں اپنا جو ہر دکھائیں گی بیس دن ذی الحجہ کے محرم پورا صفر پورا اور ربیع الاول پورا اور دس دن ربیع الآخر کے۔ زہری کہتے ہیں شوال محرم تک کی ڈھیل تھی لیکن یہ قول غریب ہے۔ اور سمجھ سے بھی بالا تر ہے کہ حکم پہنچنے سے پہلے ہی مدت شماری کیسے ہوسکتی ہے ؟
Top