Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - An-Naml : 98
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ فَاِذَا هُمْ فَرِیْقٰنِ یَخْتَصِمُوْنَ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ
: اور تحقیق ہم نے بھیجا
اِلٰى
: طرف
ثَمُوْدَ
: ثمود
اَخَاهُمْ
: ان کے بھائی
صٰلِحًا
: صالح
اَنِ
: کہ
اعْبُدُوا اللّٰهَ
: اللہ کی عبادت کرو
فَاِذَا
: پس ناگہاں
هُمْ
: وہ
فَرِيْقٰنِ
: دو فریق ہوگئے
يَخْتَصِمُوْنَ
: باہم جھگڑنے لگے وہ
اور ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا کہ خدا کی عبادت کرو تو دو فریق ہو کر آپس میں جھگڑنے لگے
آیت نمبر 45 تا 59 ترجمہ : اور یقیناً ہم نے ثمود کے پاس ان کی برادری کے بھائی صالح کو بھیجا یہ کہ تم سب اللہ کی بندگی کرو یعنی اس کی توحید کے قائل ہوجاؤ اچانک (خلاف توقع) ان میں دو فریق ہوگئے دین کے بارے میں باہم جھگڑنے لگے ایک فریق مومنوں کا تھا، ان کی طرف صالح (علیہ السلام) کو بھیجنے کے وقت سے اور دوسرا فریق کافروں کا تھا، آپ نے جھٹلانے والوں سے کہا اے میری قوم کے لوگو ! تم نیکی سے پہلے برائی کی جلدی کیوں کرتے ہو ؟ یعنی رحمت سے پہلے عذاب کی (جلدی کیوں کرتے ہو ؟ ) اس اعتبار سے کہ تم نے کہا جو تم ہمارے پاس لائے ہو اگر وہ حق ہے تو ہمارے اوپر عذاب لے آؤ، تم کس لئے اللہ سے شرک سے معافی نہیں مانگتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے، کہ عذاب میں مبتلا نہ کئے جاؤ وہ لوگ کہنے لگے ہم تو تم کو اور تمہارے ساتھ والوں یعنی مومنوں کو منحوس سمجھتے ہیں اِطّیّرْنَا اصل میں تَطَیَّرْنَا تھا تا کو طا میں ادغام کردیا (ابتداء بالسکون لازم آنے کی وجہ سے) ہمزہ شروع میں داخل کردیا الطَّیَّرْنا ہوگیا یعنی تیری وجہ سے ہم نحوست میں مبتلا ہوگئے، اس لئے کہ قوم خشک سالی اور بھکمری کا شکار ہوگئی، حضرت صالح نے فرمایا تمہاری نحوست اللہ کے پاس ہے، وہ ہی اس کو تمہارے پاس لایا ہے بلکہ تم وہ لوگ ہو جو خیر و شر کے ذریعہ آزمائش میں مبتلا کئے گئے ہو اور ثمود کے شہر (حجر) میں نو شخص ایسے تھے جو معاصی کے ذریعہ زمین (ملک) میں فساد برپا کرتے تھے، ان ہی فساد کے طریقوں میں دراہم و دنانیر کا کاٹنا بھی شامل تھا اور طاعت کے ذریعہ (ذرا) اصلاح نہ کرتے تھے، ان لوگوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا اللہ کی قسم کھاؤ کہ ہم رات کو صالح (علیہ السلام) اور اس کے ابل پر ضرور شب خون ماریں گے یعنی رات کو ہم ان کو ضرور قتل کردیں گے لَنُبَیِّتَنَّہٗ نون کے ساتھ اور (بجائے نون کے) تا اور تاء ثانیہ کے ضمہ کے ساتھ ہے، اور اَھْلٌ سے حضرت صالح (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے مراد ہیں اور پھر ہم اس کے دلی دم سے صاف کہہ دیں گے کہ ہم ان کے اہل کے ہلاک کرنے کے وقت موجود (ہی) نہیں تھے لَنَقُولَنَّ نون کے ساتھ اور تاء اور الم ثانیہ کے ضمہ کے ساتھ ہے مُھْلِکَ میم کے ضمہ کے ساتھ یعنی ان کو ہلاک کرنے کے وقت اور میم کے فتحہ کے ساتھ یعنی ان کی ہلاکت کے وقت، لہٰذا ہم نہیں جانتے کہ اسکو کس نے قتل کیا ؟ اور ہم بالکل سچے ہیں انہوں نے اس معاملہ میں ایک خفیہ تدبیر کی اور ہم نے (بھی ایک تدبیر کی یعنی ہم نے ان کو فوری عذاب میں گرفتار کرکے سزا دی اور ان کو خبر بھی نہ ہوئی سو دیکھ لو ان کے مکر کا انجام کیسا ہوا ؟ ہم نے ان کو اور ان کی پوری قوم کو جبرائیل کی چیخ کے ذریعہ یا فرشتوں کے پتھر مارنے کے ذریعہ ہلاک کردیا وہ پتھروں کو دیکھتے تھے مگر فرشتوں کو نہیں دیکھتے تھے ان کے مکانات جو ظلم کی وجہ سے خالی پڑے ہیں یعنی ان کے کفر کی وجہ سے خاوِیَۃً حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور اس میں عامل اسم اشارہ کے معنی (یعنی اشیر ) ہے بلاشبہ اس (تدبیر) میں بڑی عبرت ہے ان لوگوں کے لئے جو ہماری قدرت کو جانتے ہیں سو نصیحت حاصل کرتے ہیں، اور ہم نے ان لوگوں کو جو صالح (علیہ السلام) پر ایمان لاتے تھے اور وہ چار ہزار تھے بچا لیا اور وہ شرک سے پرہیز کرتے تھے اور لوط (علیہ السلام) کا تذکرہ کیجئے لوطاً اپنے ما قبل اذکر محذوف کی وجہ سے منصوب ہے اور اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖ اس سے (یعنی اذکر لوطاً ) سے بدل ہے جبکہ لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کیا تم بےحیائی کا کام یعنی لواطۃ کرتے ہو درآنحالیکہ تم ایک دوسرے کو معصیت میں منہمک ہونا دکھاتے ہو ایک دوسرے کو مشغول ہوتا دیکھتے ہو کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو ؟ اَئِنَّکُمْ میں دونوں ہمزوں کی تحقیق اور دوسرے کی تسہیل اور دونوں صورتوں میں دونوں کے درمیان الف داخل کرکے بلکہ تم ایسی قوم ہو جو اپنے فعل کے انجام سے بیخبر ہے قوم کے پاس جواب سوائے یہ کہنے کے کچھ نہ تھا کہ لوط کے متعلقین کو اپنی بشتی سے نکالدو یہ لوگ مردوں کی دبروں کے معاملہ میں بڑے پاک بنتے ہیں پس ہم نے اس کو اور اس کے اہل کو بجز اس کی بیوی کے بچا لیا اور ہم نے اس کو اپنی تقدیر سے عذاب میں باقی رہنے والوں میں کردیا اور ان پر ہم نے ایک خاص قسم کی بارش برسادی اور وہ کنکریلے پتھر تھے جنہوں نے ان کو ہلاک کردیا سو ان عذاب سے ڈرائے ہوئے لوگوں پر وہ بری بارش تھی اے محمد کہہ دیجئے سابقہ قوموں کے ہلاک کرنے پر سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہے، کیا اللہ بہتر ہے اس کے لئے جو اس کی بندگی کرتا ہے یا وہ جس کو یہ لوگ شریک ٹھہراتے ہیں ءٰاللہ خیرٌ میں دونوں ہمزوں کی تحقیق کے ساتھ اور دوسرے کو الف سے بدل کر اور مسہلہ اور محققہ کے درمیان الف داخل کرکے اور اس کو ترک کرکے یشرکونَ یا اور تا کے ساتھ یعنی اے اہل مکہ اللہ بہتر ہے یا وہ چیزیں جن کو تم اس کے ساتھ معبود ہونے کی حیثیت سے شریک کرتے ہو اپنے عابدین کے لئے بہتر ہیں۔ تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد ولقد ارسلنا۔۔۔ اخاھم ثمود قبیلہ کے جداَ بعد کا نام ہے سالح (علیہ السلام) بھی ان ہی کی نسل سے ہیں اس ابوالجد ہی کے نام پر قبیلہ کا نام ہے، مگر قبیلہ ہی مراد ہے حضرت صالح (علیہ السلام) کی امت ثمود کو عاد ثانیہ بھی کہتے ہیں عاد اولیٰ قوم ہود کا نام ہے عاداولیٰ اور عاد ثانیہ کے درمیان سو سال کا فاصلہ ہے (جمل) قولہ : صَالِحًا، اَخَاھم سے بدل یا عطف بیان ہے حضرت صالح (علیہ السلام) نے دو سو اسی سال کی عمر پائی، ہود (علیہ السلام) کی عمر چار سو چونسٹھ سال ہوئی، ہود (علیہ السلام) اور نوح (علیہ السلام) کے درمیان آٹھ سو سال کا فاصلہ ہے (جمل) فَاِذَا ھُمْ فَرِیقانِ یختَصِمُوْنَ فریقان سے قوم صالح مراد ہے یعنی کچھ لوگ ایمان لے آئے اور کچھ نہیں لائے علامہ زمخشری نے دو فریقوں میں ایک فریق حضرت صالح (علیہ السلام) کو اور دوسرا ان کی قوم کو قرار دیا ہے، علامہ زمخشری کو فریقان کا یہ مطلب لینے پر فا کے ذریعہ عطف نے آمادہ کیا ہے اس لئے کہ فا تعقیب بالاتصال پر دلالت کرتی ہے یعنی دعوۂ رسالت سے متصلاً دو فریق ہوگئے یعنی ایک فریق حضرت صالح اور دوسرا فریق ان کی قوم۔ قولہ : یختصمون باعتبار معنی کے فریقان کی صفت ہے یعنی فریقان موصوف اگرچہ باعتبار لفظوں کے تثنیہ ہے مگر چونکہ ہر فریق چند افراد پر مشتمل ہوتا ہے اس لئے اس میں جمعیۃ کے معنی ہیں لہٰذا موصوف وصفت میں مطابقت موجود ہے۔ قولہ : لِمَ تَسْتَعْجلُوْنَ بِالسَّیِّئَۃِ ای بطلب السَّیّئَۃِ ای بطلب السَّیّئَۃِ اور سیئۃ سے عذاب اور الحّسَنَۃِ سے رحمت مراد ہے جیسا کہ مفسر علام نے اشارہ کیا ہے۔ قولہ : قُحِطُوْا المَطَرَ ای حُبِسُوّا المطرَ یعنی تمہاری نحوست کی وجہ سے بارش روک دی گئی۔ قولہ : مدینۃ ثمود کہا گیا ہے کہ ثمود کے شہر کا نام حجر تھا، اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ حجر مدینہ اور شام کے درمیان وادی ہے یہیں پر ثمود کی آبادی تھی۔ قولہ : رَھْطٍ کی تفسیر رجالٍ سے کرکے اشارہ کردیا کہ رَھْطٍ تسعۃُ سے معنی کے اعتبار سے تمیز واقع ہے رَھْطٌ گو لفظوں کے اعتبار سے مفرد ہے مگر معنی کے اعتبار سے جمع ہے لہٰذا اس کا تمیز واقع ہونا صحیح ہوگیا تِسْعۃٌ رھطٍ میں اضافت بیانیہ ہے، تسعۃً ھم رَھْطٌ، رھطٌ دس سے کم اشخاص کو کہتے ہیں جن میں عورتیں نہ ہوں تَقَاسَمُوْا کی تفسیر اِحْلَفُوا سے کرکے اشارہ کردیا کہ منصوبہ بنایا تھا انہوں نے آپس میں کہا کہ قسمیں کھاؤ کہ ہم صالح اور ان کے اہل خانہ پر شب خون ماریں گے، تَقَاسَمُوْا فعل ماضی بھی ہوسکتا ہے اس صورت میں لقالوا کی تفسیر واقع ہوگا، گویا کہ سوال کیا گیا ماقالوا ؟ فقیل تقاسموا نُبَیّتُنَّہٗ مضارع جمع متکلم بانون تاکید ثقیلہ ہٗ ضمیر مفعول، باب تفعیل ہم اس پر ضرور رات میں حملہ کریں گے۔ قولہ : بِمَا ظَلَمُوْا کی تفسیر بظلمھم سے کرکے اشارہ کردیا کہ ما مصدریہ ہے اور باسببیہ ہے۔ قولہ : آمنوا بصالحٍ دیگر تفاسیر میں آمنوا صالحاً ہے، قولہ : وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ تاتونَ کی ضمیر سے جملہ ہو کر حال ہے مقصد نکیر کی تاکید و تشدید ہے یَبْصُرْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رویت سے رویت بصری مراد ہے (یعنی ایک دوسرے کے سامنے خبیث حرکت کرتے تھے) بعض نے تبصرون سے رویت قلبی مراد لی ہے یعنی جانتے بوجھتے بھی ایسی حرکت کرتے ہو۔ قولہ : لَتَاتُوْنَ الرِّجَالَ شَھْوَۃً مِنْ دُوْنِ النِّسَاءِ سے اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَ میں جو ابہام ہے اس کی تعیین ہے اولاً مبہم رکھنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ حرکت ناقابل بیان بلکہ اس کے وصف کا بیان کرنا نہایت مشکل اور دشوار ہے کوئی بھی ذی عقل اور ہوشمند اس کی تصدیق نہیں کرے گا کہ کسی سے ایسی حرکت صادر ہوسکتی ہے۔ قولہ : مِن دون النِّساءِ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس حرکت میں دو طرفہ معصیت ہے یعنی مردوں کے ساتھ فعل معصیت ہے اور عورتوں کا ترک معصیت ہے۔ قولہ : تجھلونَ (سوال) قوم کی صفت ہے حالانکہ دونوں میں مطابقت نہیں ہے اس لئے کہ قومٌ غائب ہے اور تجھلون حاضر (جواب) غیبت اور مخاطبت جب جمع ہوجاتی ہے تو مخاطبت کے اقویٰ ہونے کی وجہ سے مخاطبت کو غیبت پر غلبہ دیدیا جاتا ہے (جمل) یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ مخاطب قوم ہے اس لئے اس کو حاضر کے درجہ میں رکھ کر صفت مخاطب کے صیغہ کے ساتھ لایا گیا ہے۔ قولہ : عاقبۃً اس سے اشارہ ہے کہ تجھلون کا مفعول محذوف ہے۔ قولہ : فما کان جوابَ قومہٖ کان کی خبر مقدم ہے وَاِلاَّ اَن قالوا اس کا اسم ہے ای اِلاَّ قولُھم اور ابن ابی اسحٰق نے جوابُ کو اسم کان قرار دیکر رفع پڑھا ہے اور مابعد کو اس کی خبر قرار دیا ہے۔ قولہ : وَاَمْطَرْنَا علَیْھِمْ مَطَرًا یہ تاکید شدت مطر پر دلالت کرنے کے لئے یعنی وہ بارش غیر معہود اور غیر معمولی تھی بالعذاب منذرین کے متعلق ہے اور مَطَرُھم مخصوص بالذم ہے۔ تفسیر و تشریح ولقد ارسلنا۔۔۔ اخاھم یہ اس سورت کا چوتھا قصہ ہے، حضرت صالح (علیہ السلام) کا نام قرآن کریم میں آٹھ جگہ آیا ہے، حضرت صالح (علیہ السلام) جس قوم میں پیدا ہوئے اس کو ثمود کہتے تھے حضرت صالح (علیہ السلام) کا سلسلہ نسب چھ واسطوں سے ان کے جداعلیٰ ثمود تک پہنچ جاتا ہے یہ امام بغوی کی تحقیق ہے اور یہی تاریخی حیثیت سے راجح ہے (قصص القرآن) اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ قوم ثمود کا نام ثمود ان کے مورث اعلیٰ کے نام پر ہے، ثمود سے حضرت نوح (علیہ السلام) تک کہ سلسلہ نسب میں دو قول ہیں (1) ثمود بن عامر بن ارم بن سام بن نوح (2) ثمود بن عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح (علیہ السلام) ، صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ امام ثعلبی دوسرے قول کو راجع سمجھتے ہیں، قوم ثمود سامی اقوام ہی کی ایک شاخ ہے، عاد اولیٰ کی ہلاکت کے وقت حضرت ہود (علیہ السلام) کے ساتھ بچ گئے تھے یہ وہی لوگ ہیں اور یہی نسل، عاد ثانیہ کہلائی۔ ثمود کی بستیاں : ثمود کہاں آباد تھے ؟ اور کس خطہ میں پھیلے ہوئے تھے ؟ اس کے متعلق یہ طے شدہ امر ہے کہ ان کی آبادیاں حجر میں تھیں، حجاج اور شام کے درمیان وادی قریٰ تک جو میدان نظر آتا ہے یہ سب ان کا مقام سکونت ہے، اور آج کل فج الناقہ کے نام سے مشہور ہے ثمود کی بستیوں کے خرابات اور آثار آج تک موجود ہیں۔ اہل ثمود کا مذہب : ثمود اپنے پیش دو ، بت پرستوں کی طرح بت پرست تھے اور خدائے وحدہٗ لاشریک کے علاوہ بہت سے معبود ان باطلہ کے پرستار تھے، اس کی اصلاح کے لئے ان ہی کے قبیلہ میں سے حضرت صالح کو ناصح اور رسول بنا کر بھیجا گیا، ان کی قوم کے تقریباً چار ہزار افراد ان پر ایمان لائے تھے عذاب آنے سے پہلے جن کو لیکر حضرت صالح (علیہ السلام) حضرموت تشریف لے گئے جہاں حضرت صالح کا انتقال ہوگیا اسی وجہ سے اس کا نام حضرموت مشہور ہوگیا۔ ناقۃ اللہ : حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم ثمود کو بہت سمجھایا، قوم بجائے اس کے کہ ان کی نصیحت کو قبول کرتی، بت پرستی سے باز آتی، ان کا بغض وعناد ترقی پاتا رہا اور حضرت صالح (علیہ السلام) کی مخالفت میں اضافہ ہی ہوتا رہا، اگرچہ کمزور اور مختصر جماعت نے ایمان قبول کرلیا مگر سربرآوردہ اور اہل اقتدار اور خوشحال لوگوں کی جماعت بت پرستی پر قائم رہی، خدا کی دی ہوئی ہر قسم کی خوش عیشی اور رفاہیت کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے کفران نعمت کو شعار بنا لیا، حضرت صالح کی نہ صرف یہ کہ تکذیب کی بلکہ ان کا مذاق بھی اڑاتی رہی، اور پیغمبرانہ دعوت و نصیحت کو قبول کرنے سے انکار کردیا، اور نشان نبوت کا مطالبہ کیا۔ تاریخی حیثیت سے واقعہ کی تفصیل : واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم جب حضرت صالح (علیہ السلام) کی تبلیغ حق سے اکتا گئی تو ان کے سرخیل اور سرگروہ افراد نے قوم کی موجودگی میں مطالبہ کیا اے سالح اگر تو واقعہ خدا کافر ستادہ ہے تو کوئی نشان (معجزہ) دکھا، تاکہ ہم تیری صداقت پر ایمان لے آئیں، حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ایسا نہ ہو کہ نشان آنے کے بعد بھی انکار پر مصر اور سرکشی پر قائم رہو، قوم کے ان سرداروں نے بتاکید وعدہ کیا کہ ہم فوراً ایمان لے آئیں گے، تب حضرت صالح (علیہ السلام) نے دریافت کیا کہ وہ کس قسم کا نشاہ چاہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ سامنے والے پہاڑ سے یا بستی کے اس پتھر سے جو کنارہ پر نصب ہے ایک ایسی اونٹنی ظاہر کر کہ جو گیا بھن ہو اور فوراً بچہ دے، حضرت صالح (علیہ السلام) نے بارگاہ الٰہی میں دعا کی جس کے نتیجے میں اسی وقت اس پتھر سے حاملہ اونٹنی ظاہر ہوئی اور اس نے بچہ دیا، یہ دیکھ کر ان سرداروں میں سے جندع بن عمر تو اسی وقت مسلمان ہوگیا اور دوسرے سرداروں نے بھی جب اس کی پیروی میں اسلام لانے کا ارادہ کیا تو ان کے ہیکلوں اور مندروں کے مہنتوں نے ان کو اسلام لانے سے باز رکھا۔ اب صالح (علیہ السلام) نے قوم کے تمام افراد کو تنبیہ کی کہ دیکھو یہ نشانی تمہاری طلب پر بھیجی گئی ہے خدا کا یہ فیصلہ ہے کہ پانی کی باری مقرر ہو ایک دن اس اونٹنی کا ہوگا اور ایک دن پوری قوم اور ان کے جانوروں کا، اور خبردار اس کو کوئی اذیت نہ پہنچے، اگر اس کو آزار پہنچا تو تمہاری خیر نہیں ہے ایک مدت تک یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا، اور پوری قوم اس کے دودھ سے فائدہ اٹھاتی رہی، آہستہ آہستہ یہ بات بھی ان کو کھٹکنے لگی اور آپس میں صلاح و مشورے ہونے لگے کہ اس ناقہ کا خاتمہ کردیا جائے تاکہ باری کے قصے سے نجات ملے، کیونکہ اب ہمارے چوپایوں کے لئے اور خود ہمارے لئے ناقابل برداشت ہے مگر قتل کرنے کی کسی کی ہمت نہیں ہوتی تھی، ایک حسین و جمیل مالدار عورت صدوق نے خود کو ایک شخص مصدع کے سامنے اور دوسری مالدار عورت عنیزہ نے اپنی ایک خوبصورت لڑکی کو قیدار (قدار) کے سامنے یہ کہہ کر پیش کیا کہ اگر وہ ناقہ کو ہلاک کردیں تو یہ تمہاری ملک ہیں، تم ان کو بیوی بنا کر عیش کرو آخر قیدار بن سالف اور مصدع کو اس کے لئے آمادہ کرلیا گیا اور طے پایا کہ وہ راہ میں چھپ کر بیٹھ جائیں اور ناقہ جب چراگاہ جانے لگے تو اس پر حملہ کردیں اور چند دیگر آدمیوں نے بھی مدد کا وعدہ کیا۔ غرضیکہ ایسا ہی کیا گیا اور ناقہ کو اس طرح سازش کرکے قتل کردیا گیا اور آپس میں قسمیں کھائیں کہ رات ہونے پر ہم سب صالح اور اس کے اہل و عیال کو بھی قتل کردیں گے اور پھر اس کے اولیاء کو قسمیں کھا کر یقین دلا دیں گے کہ یہ کام ہمارا نہیں ہم تو اس وقت موجود بھی نہیں تھے ادھر بچہ یہ دیکھ کر بھاگ کر پہاڑ پر چڑھ گیا اور چیختا چلاتا پہاڑی میں غائب ہوگیا۔ صالح (علیہ السلام) کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو فرمایا آخر وہی ہوا جس کا مجھے خطرہ تھا، اب خدائی عذاب کا انتطار کرو جو تین دن کے بعد تم کو تباہ کر دے گا، اور پھر بجلی کی چمک اور کڑک کا عذاب آیا اس نے رات میں سب کو تباہ کردیا اور آنے والے انسانوں کے لئے تاریخی عبرت کا سبق دے گیا۔ صاحب روح المعانی سید آلوسی (رح) اپنی تفسیر روح المعانی میں تحریر فرماتے ہیں کہ ثمود پر عذاب کی علامات اگلی صبح ہی سے نمودار ہونے لگیں، پہلے روز ان سب کے چہرے اس طرح زرد پڑگئے جیسا کہ خوف کی ابتدائی حالت میں ہوجایا کرتا ہے، اور دوسرے روز سب کے چہرے سرخ تھے گویا کہ خوف و دہشت کا یہ دوسرا درجہ تھا اور تیسرے روز ان سب کے چہرے سیاہ تھے اور یہ خوف و دہشت کا وہ تیسرا مقام ہے کہ جس کے بعد موت ہی کا درجہ باقی رہ جاتا ہے۔ بہرحال ان تین دن کے بعد وقت موعود آپہنچا اور رات کے وقت ایک ہیبت نال آواز نے ہر شخص کو اسی حالت میں ہلاک کردیا جس حالت میں وہ تھا قرآن عزیز نے اس ہلاکت آفریں آواز کو کسی مقام پر صاعقہ (کڑک دار بجلی) اور کسی جگہ (زلزلہ ڈال دینے والی شئ) اور بعض جگہ طاغیہ (دہشت ناک) اور بعض جگہ صیحہ (چیخ) فرمایا، یہ سب ایک ہی حقیقت کی مختلف اوصاف کے اعتبار سے تعبیرات ہیں تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ خدا تعالیٰ کے اس عذاب کی ہولناکیاں کیسی گونا گوں تھیں۔ ایک طرف ثمود پر یہ عذاب نازل ہوا دوسری طرف حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے پیرو مسلمانوں کو خدا نے اپنی حفاظت میں لے لیا اور ان کو اس عذاب سے محفوظ رکھا۔ قصہ لوط (علیہ السلام) : ولوطاً گزشتہ صفحات میں حضرت لوط (علیہ السلام) کا ذکر آچکا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے برادر زادہ ہیں ان کے والد کا نام ہاران تھا، حضرت لوط (علیہ السلام) کا بچپن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زیر سایہ گزرا تھا حضرت لوط (علیہ السلام) ہجرت میں بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ رہے ہیں اور جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مصر تشریف لے گئے تھے تو اس وقت بھی حضرت لوط (علیہ السلام) ہمراہ تھے، اور مصر میں بھی قیام ساتھ ہی میں رہا باہم مشورہ سے یہ بات طے پائی کہ لوط مصر سے ہجرت کرکے مشرق اردن کے علاوہ سدوم اور عامورہ چلے چائیں اور وہاں رہ کر دین حنیف کی تبلیغ و اشاعت کا کام کریں اور حضرت ابراہیم واپس فلسطین چلے جائیں۔ سدوم : اردن کی وہ جانب ہے جہاں آج بحر میت یا بحر لوط واقع ہے یہی وہ مقام ہے کہ جہاں سدوم و عامورہ کی بستیاں واقع تھیں وہاں کے گرد و نواح میں بسنے والوں کا یہ اعتقاد ہے کہ وہ تمام حصہ جواب زیر آب نظر آتا ہے کسی زمانہ میں خشک زمین تھی اور اس پر شہر آباد تھے، قوم لوط پر عذاب کی وجہ سے یہ زمین تقریباً چار سو میٹر سطح سمندر سے نیچے چلی گئی، اسی لئے اس کو بحر میت اور بحر لوط کہتے ہیں۔ (بستان جلد 9، ص 537، بحوالہ قصص القرآن ج 1، ص 257)
Top