Al-Quran-al-Kareem - Al-Ghaafir : 53
تَاللّٰهِ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰۤى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَزَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِیُّهُمُ الْیَوْمَ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
تَاللّٰهِ : اللہ کی قسم لَقَدْ اَرْسَلْنَآ : تحقیق ہم نے بھیجے اِلٰٓى : طرف اُمَمٍ : امتیں مِّنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے فَزَيَّنَ : پھر اچھا کردکھایا لَهُمُ : ان کے لیے الشَّيْطٰنُ : شیطان اَعْمَالَهُمْ : ان کے اعمال فَهُوَ : پس وہ وَلِيُّهُمُ : ان کا رفیق الْيَوْمَ : آج وَلَهُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ اَلِيْمٌ : عذاب دردناک
بیشک ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ضرور مدد کرتے ہیں دنیا کی زندگی میں اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔
(1) انا لمنصر رسلنا والذین امنوا…سورت کی ابتدا سے یہاں تک آیات کا حاصل یہ تھا کہ نوح ؑ کی قوم نے اور ان کے بعد آنے والے رسلووں کی امتوں نے اپنے رسولوں کو جھٹلایا، حق کو شکست دینے کیلئے باطل طریقے سے کج بحثی کی اور ہر ایک نے اپنے رسول کو گرفتار کرنے کا ارادہ کیا، مگر وہ اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں ہلاک کیا اور آخرت میں ان کے لئے شدید ترین عذاب رکھا۔ موسیٰ ؑ اور ان کا دفاع کرنے والے مومن کی بھی ا سی طرح مدد فرمائی، مگر اللہ تعالیٰ کی اپنے لوگوں کے ساتھ امداد مخفی ہوتی ہے۔ پہلے کئی طرح سے ان کی آزمائش ہوتی ہے، پھر انجام ان کے حق میں ہوتا ہے۔ اکثر لوگوں کی نظر چونکہ ظاہری اسباب پر ہوتی ہے اور وہ ایمانی فرسات سے محروم ہوتے ہیں، اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی مدد نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان واقعات کے ذکر کے بعد جن میں ”ان“ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نصرت کا بیان ہے، اب ”ان“ اور لام تاکید کے ساتھ اور پانی عظمت کے اظہار کے لئے اپنا ذکر جمع متکلم کے صیغے کے ساتھ کرتے ہوئے نہایت زور دار الفاظ میں فرمایا :(انا لمنصر رسلنا والذین امنوا) کہ بیشک ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ضرور مدد کرتے ہیں، خواہ وہ کسی کی سمجھ میں آرہی ہو یا نہ، ہمارا قاعدہ یہی ہے۔ (2) فی الحیوۃ الدنیا : یہاں ایک سوال ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کئی رسول دنیا میں اپنی قوم پر غالب نہ آسکے، کئی انبیاء قتل ہوئے، ایمان والوں کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ پھر اتنی تاکید کیساتھ یہ کہنے کا کیا مطلب ہے کہ ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ضرور مدد کرتے ہیں، دنیا کی زندگی میں اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے ؟ جو اب اس کا یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں رسولوں اور مومنوں کی مدد کی کئی صورتیں ہیں۔ سب سے بڑی مدد تو یہ ہے کہ وہ ہر قسم کے حالات میں حق پر ثابت قدم رہتے ہیں، بڑے سے بڑے لالچ یا بڑی سے بڑی آزمائش حتیٰ کہ شہادت کی صورت میں بھی ان کے قدم ایمان سے نہیں ڈگمگاتے۔ یہ استقامت اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت کے بغیر کبھی حاصل نہیں ہوسکتی، جیسا کہ فرمایا :(ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تنزل علیھم الملٓئکۃ الا تغافوا ولا تخزنوا وابشروا بالجنۃ التی کنتم توعدون نحن اولیو کم فی الحیوۃ الدنیا و فی الاخرۃ) (حم السجدہ :3130)”بیشک وہ لوگ جنہوں نے کہا ہمارے رب اللہ ہے، پھر خوب قائم رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنت کے ساتھ خوش ہوجاؤ جس کا تم وعدہ دیئے جاتے تھے۔ ہم تمہارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی۔“ اس نصرت کی ایک مثال اصحاب الاخدود ہیں۔ ایک صورت مدد کی یہ ہے کہ دلیل وبرہان کے لحاظ سے وہ ہمیشہ اپنے دشمنوں پر غالب رہتے ہیں جیسا کہ فرعن نے اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود دلیل کے میدان میں شکست کھائی، حتیٰ کہ وہ جادو گر جو مقابلے پر لائے گئے تھے، سجدے میں گرگئے اور ایمان لے آئے۔ ایک صورت مدد کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ایسی ذہنی اور قلبی برتری عطا فرماتا ہے کہ ہر قسم کی قوت و شوکت اور ملک و سلطنت کے باوجود ان کی نظر میں کفار کی حیثیت گھاس کے ایک تنکے سے بھی کم ہوتی ہے۔ ایک صورت مدد کی یہ ہے کہ ان کے دشمنوں سے دنیا میں ان زیادتیوں کا بدلا لیا جاتا ہے جو وہ رسولوں اور ایمان والوں پر کرتے رہے۔ (دیکھیے روم : 47) پھر خواہ وہ بدلا رسول کی موجودگی میں لیا جائے، جیسا کہ قوم نوح اور عاد ثمود کے ساتھ وہا، خواہ رسول کے بعد لیا جائے، جیسا کہ بنی اسرائیل کے اپنے بعض رسولوں کو قتل کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے سخت لڑائی والے بندے مسلط کر کے انہیں نہایت عبرت ناک سزا دی، جیسا کہ سوہ بنی اسرائیل کے شروع میں مذکور ہے اور جن یہودیوں نے عیسیٰ ؑ کو سولی دینے کا منصوبہ بنایا ان پر رومیوں کو مسلط کیا گیا، جنہوں نے انہیں ہر طریقے سے ذلیل و خوار کیا اور وہ دنیا میں ایسے منتشر ہوئے کہ آج تک کسی نہ کسی قوم کی پناہ کے بغیر کسی جگہ ان کا قیام مشکل ہے۔ (دیکھیے سورة بنی اسرائیل : 4 تا 7) اور مدد کی ایک صورت یہ ہے کہ انہیں دنیا میں مادی لحاظ سے فتح و نصرت اور حکومت و سلطنت عطا کردی جائے جیسا کہ داؤد اور سلیمان ؑ کی مدد ہوئی۔ ان صورتوں میں سے کسی نبی کو صرف ایک قسم کی مدد حاصل ہوئی، کسی کو دو قسم کی اور کسی کو زیادہ کی۔ ہمارے نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ ہر قسم کی مدد سے فیض یاب ہوئے۔ (3) ویوم یقوم الاشھاد :”الاشھا ”‘ ”شاھ ”‘ کی جمع بھی ہوسکتی ہے، جیسے ”ضاحب“ کی جمع ”اضحاب“ ہے اور ”شھی ”‘ کی بھی، جیسے ”شریف“ کی جمع ”اشراف“ ہے۔ یعنی اس دن بھی ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی مدد کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے۔ مراد قیامت کا دن ہے جب انبیائ، فرشتے، اہل ایمان، زمین اور انسان کے اعضا آدمی کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ اس دن اللہ تعالیٰ مومنوں کو جنت عطا فرما کر اور ان کے دشمنوں کو جہنم میں پھینک کر اپنے رسولوں اور ایمان والوں کی مدد فرمائے گا۔ دیکھیے سورة مطففین (29 تا 36)۔
Top