Al-Qurtubi - Al-Ghaafir : 51
اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْهَادُۙ
اِنَّا : بیشک ہم لَنَنْصُرُ : ضرور مدد کرتے ہیں رُسُلَنَا : اپنے رسول (جمع) وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَيَوْمَ : اور جس دن يَقُوْمُ : کھڑے ہوں گے الْاَشْهَادُ : گواہی دینے والے
ہم اپنے پیغمبروں کی اور جو لوگ ایمان لائے ہیں، ان کی دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں اور جس دن گواہ کھڑے ہوں گے
(انا لنصر رسلنا والذین۔۔۔ ) انا لننصر رسلنا رسلنا کو ضمہ کو اس کے ثقل کی وجہ سے حذف کرنا جائز ہے تو کہا جائے گا : رسلنا اس سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں والذین امنوا فی الحیواۃ الدنیا ہم موصول محل نصب میں ہے اس کا عطف الرسل پر ہے اس سے مراد وہ مومن ہے جس نے وعظ کیا تھا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ رسل اور مومنین میں عام ہے۔ ابو العالیہ کے قول کے مطابق ان کی مدد سے مراد ان کے دلائل کو غلبہ دینا اور ان کو کامیابی دینا ہے (2) ایک قول یہ کیا گیا ہے : ان کے دشمنوں سے انتقام لینا ہے۔ سدی نے کہا : کسی قوم نے کسی نبی کو قتل نہیں کیا یا ایسی قوم کو قتل نہیں کیا جو مومن تھے (3) اور حق کی طرف دعوت دے رہے تھے مگر اللہ تعالیٰ ان پر ایسے آدمی کو مسلط کردیتا ہے جو ان سے انتقام لیتا ہے تو وہ سب رحمت سے دور کیے گئے ہوتے ہیں اگرچہ قتل ہی کیے جائیں۔ 1 ؎۔ جامع ترمذی، کتاب صفۃ جھنم، ماجاء ل صفۃ الطعام، جلد 2، صفحہ 82 2 ؎۔ تفسیر ماوردی، جلد 5، صفحہ 160 3 ؎۔ ایضاً ، جلد 5، صفحہ 161 ویوم یقوم الاشھاد۔ قیامت کے روز گواہی دینے کے لیے کھڑے ہوں گے۔ زید بن اسلم نے کہا : اشہاد چار ہیں فرشتے، انبیاء، مومن اور جنم (1) ۔ مجاہد اور سدی نے کہا : اشہاد سے مراد ملائکہ ہیں جو انبیاء کے بارے میں یہ گواہی دیں گے کہ انہوں نے پیغام حق پہنچایا اور امتوں کے بارے میں گواہی دیں گے کہ انہوں نے انبیاء کی تکذیب کی (2) ۔ قتادہ نے کہا : اس سے مراد ملائکہ اور انبیاء ہیں (3) ایک قول یہ کیا گیا ہے : الاشھاد شہید کی جمع ہے جس طرح شریف کی جمع اشراف آتی ہے۔ زجاج نے کہا : الاشھاد، شاھد کی جمع ہے جس طرح اصحاب، صاحب کی جمع ہے (4) نحاس نے کہا : فاعل کے وزن کی جمع افعل کے وزن پر نہیں آتی اور نہ ہی اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے مگر جو الفاظ اس بارے میں مسموع ہیں انہیں اس طرح ادا کیا جائے گا جس طرح انہیں سنا گیا اس میں حروف زائد کو حذف کردیا گیا ہے۔ اخفش اور فراء نے ویوم تقوم الاشھاد فعل کو تاء کے ساتھ پڑھا ہے کیونکہ جمع مونث ہوتی ہے۔ حضرت ابو دائود ؓ اور دوسرے محدثین نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ ” جس نے اپنے مسلمان بھائی کی عزت کی حفاظت کی تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے کہ اس سے جہنم کی آگ کو دور کرے پھر یہ آیت تلاوت کی “۔ انا لننصر رسلنا والدین امنوا “ نبی کریم ﷺ سے یہ روایت مروی ہے :” جس نے کسی مومن کی ایسے منافق کے مقابلہ میں حمایت کی جو منافق مومن کی غیبت کیا کرتا تھا قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجے گا جو آگ سے اس کو بچائے گا۔ جس نے کسی مسلمان کا ذکر کسی ایسی چیز کے ساتھ کیا جو اس کے لیے عیب کا باعث تھا اللہ تعالیٰ اسے جہنم کے پل پر روک لے گا یہاں تک کہ جو کچھ اس نے کہا تھا اس نے نقل کیا جائے گا “ (5) یوم یہ پہلے یوم سے بدل ہے لا ینفع الظلمین معذر تھم نافع اور کو فیوں نے یاء کے ساتھ اسے ینفع پڑھا ہے جبکہ باقی قراء نے اسے تاء کے ساتھ پڑھا ہے و لھم اللعنۃ ولھم سوعا الدار۔ لعنت سے مراد اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری ہے اور سوء الدار سے مراد جہنم ہے۔ ولقد اتینا موسیٰ الھدی یہ دنیا اور آخرت میں رسولوں کی مدد میں داخل ہے یعنی ہم نے اسے تورات اور نبوی عطاء فرمائی۔ توران کو ھدی کہا گیا کیونکہ تورات میں ہدایت اور نور ہے قرآن حکیم میں ہے انا انزلنا التورۃ فیھا ھدی و نور (المائدہ : 44 ) واورثنا بنی اسرائیل الکتب۔ کتاب سے مراد تورات ہے یعنی ہم نے تورات کو ان کو میراث بنایا ہے ھدی یہ الکتب سے بدل ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ اصل میں ھوھدی ہو یعنی ذلک الکتاب اور اصحاب عقول کے لیے نصیحت ہے۔
Top