Tafseer-e-Jalalain - Al-Ahzaab : 69
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْا١ؕ وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَا تَكُوْنُوْا : تم نہ ہونا كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح اٰذَوْا : انہوں نے ستایا مُوْسٰى : موسیٰ فَبَرَّاَهُ : تو بری کردیا اس کو اللّٰهُ : اللہ مِمَّا : اس سے جو قَالُوْا ۭ : انہوں نے کہا وَكَانَ : اور وہ تھے عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَجِيْهًا : باآبرو
مومنو ! تم ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو (عیب لگا کر) رنج پہنچایا تو خدا نے ان کو بےعیب ثابت کیا اور وہ خدا کے نزدیک آبرو والے تھے
آیت نمبر 69 تا 73 ترجمہ : اے ایمان والو ! تم اپنے نبی کے ساتھ ان لوگوں جیسے نہ بن جاؤ جنہوں نے موسیٰ کو مثلاً یہ کہہ کر ایذاء دی کہ موسیٰ کو ہمارے ساتھ (برہنہ) غسل کرنے سے سوائے اس کے کچھ مانع نہیں کہ وہ عظیم الخصیتین ہے پس جو بات انہوں نے کہی تھی اللہ نے اس ان کو بری فرمادیا، اس طریقہ سے کہ (ایک روز) غسل کے ارادہ (موسیٰ نے) اپنے کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ دیئے، تو پتھر ان کے کپڑے لیکر فرار ہوگیا، اور بنی اسرائیل کے سرداروں کے درمیان جاکر رکا، تو موسیٰ (علیہ السلام) نے پتھر کو وہاں جا کر پکڑا اور اس سے اپنے کپڑے لئے چناچہ ان لوگوں نے موسیٰ کو دیکھ لیا کہ ان کو عظیم الخصیتین ہونے کا مرض نہیں ہے اور اُدْرَۃ خصیتین میں ہوا بھر جانے کو کہتے ہیں اور موسیٰ اللہ کے نزدیک بڑے باعزت تھے یعنی صاحب مرتبہ تھے، اور ان باتوں میں سے جن کے ذریعہ ہمارے نبی ﷺ کو اذیت پہنچائی گئی یہ ہے کہ آپ ﷺ نے (ایک مرتبہ مال غنیمت) کی تقسیم فرمائی تو ایک شخص نے کہا یہ ایسی تقسیم ہے کہ اس سے اللہ کی خوشنودی مقصد نہیں ہے، تو نبی ﷺ کو اس تکلیف پہنچی اور فرمایا اللہ موسیٰ علیہ الصلاۃ السلام پر رحم کرے کہ اس سے بھی زیادہ تکلیف پہنچائے گئے پھر بھی صبر کیا، اس کو بخاری نے روایت کیا ہے اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور سیدھی صحیح بات کہا کرو اللہ تعالیٰ (اس کے صلہ میں) تمہارے اعمال کی اصلاح فرمائے گا اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا تو وہ بڑی کامیابی کو پہنچے گا، یعنی غایت مقصود کو حاصل کرے گا، ہم نے یہ امانت یعنی نماز وغیرہ کہ جس کے کرنے میں ثواب اور ترک میں عذاب ہے آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی اس طریقہ پر کہ ہم نے اس میں سمجھ اور گویائی پیدا فرمائی تو انہوں نے اس کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکاری کردیا، اور اس سے ڈر گئے اور انسان یعنی آدم نے اس امانت کو اس پر پیش کئے جانے کے بعد قبول کرلیا بلاشبہ انسان بار امانت کو اٹھانے کی وجہ سے اپنے اوپر بہت ظلم کرنے والا اور بار امانت اٹھانے کے انجام سے بیخبر ہے اور یہ (عرض امانت) اس لئے ہوا کہ منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو جو کہ امانت کو ضائع کرنے والے ہیں سزا دے لیعذِّبَ اللہ کا لام عَرَضْنَا سے متعلق ہے، جس پر آدم (علیہ السلام) کا (بار امانت) اٹھانا مرتب ہے اور اللہ تعالیٰ (حق) امانت ادا کرنے والے مومن ومومنات کی توبہ قبول فرمائے گا، اور اللہ تعالیٰ غفور ورحیم ہے۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : لااُدْرَۃَ بِہٖ . اُدْرَۃ ایک مرض ہے جس میں مادۂ غلیظ یا ریح غلیظ خصیتین میں اتر آتا ہے جس کی وجہ سے خصیتین کا حجم بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے، ایسے شخص کو آدِرْ کہتے ہیں، بروزن آدِمْ ۔ قولہ : مِمَّا قَالُوْا مامصدریہ اگر ہے تو تقدیر عبارت ہوگی فَبَرَّأہُ اللہ من قولھم اور اگر موصولہ ہو تو تقدیر عبارت ہوگی فَبَرَّأہُ اللہ ای مِنَ الَّذِیْ قالُوْا۔ قولہ : بہٖ ای بالثوبِ. قولہ : مَمَّا اس میں من، مع کے معنی میں ہے ای مَعَ مَا فِی فِعْلِھَا . قولہ : منَ الثواب یہ ما کا بیان ہے۔ قولہ : اَبَیْن یہ اِبِاءٌ جمع مؤنث غائب کا صیغہ ہے۔ سوال : اَبَیْنَ ، یَحْمِلْنَ اور أشفَقْنَ یہ تینوں جمع مؤنث کے صیغے اور انکا مرجع سمٰوات، ارض، اور جبال ہے ان میں سمٰوات اور ارض مؤنث ہیں اور جبال مذکر ہے اس سے معلوم ہوتا ہے مؤنث کو غلبہ دیکر مؤنث کی ضمیریں لائی گئیں ہیں جبکہ غلبہ مذکر کو دیا جاتا ہے جواب : چونکہ سمٰوات اور جبال جمع تکسیر غیر عاقل ہیں لہٰذا ان کے لئے مونث کی ضمیر لانا جائز ہے۔ قولہ : وَحَمَلَھَا الإنسان اس کا معطوف علیہ محذوف ہے تقدیر عبارت یہ ہے کہ فَعَرَضْنَا ھَا فَحَمَلَھَا الاِنْسَانُ شارح (رح) تعالیٰ نے اپنے قول بَعدَ عرضِھَا علیہ سے اسی تقدیر کی طرف اشارہ کیا ہے۔ قولہ : ظَلُوْمًا لِنفسہٖ ای اِتْعَابُہٗ اِیَّاھَا یعنی اپنے نفس کو مشقت میں ڈالنا، شارح (رح) تعالیٰ نے اپنے قول بمَا حَملَہٗ سے اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہ ظلم ممدوح ہے، اور جن حضرات نے اس کے بیان کرنے میں توقف کیا ہے وہ ظلم سے حقیقی ظلم سمجھے ہیں اور یہ حد شروع سے تجاوز ہے۔ قولہ : بہٖ ای بعاقبتہٖ (انجام) ۔ قولہ : لِیُعَذِّبَ اللہُ المنافقِیْنَ لام عاقبت کا ہے ای حَمَلَھا الإنسانُ لِیُعذِّبَ اللہُ بعضَ أفرادِ الذین لَمْ یُرَاعُوْھَا . تفسیر وتشریح یٰایھا۔۔۔ موسیٰ اس آیت کی تفسیر حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نہایت ہی باحیا اور شرمیلے تھے، چناچہ انہوں نے کبھی اپنا جسم لوگوں کے سامنے ننگا نہیں کیا، بنی اسرائیل کہنے لگے شاید موسیٰ (علیہ السلام) کے جسم میں برص کے داغ یا کوئی آفت مثلاً نفخ الخصیتین کا مرض ہے جس کی وجہ سے ہر وقت لباس میں بدن کا ڈھکا چھپا رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی اس طرح عیوب سے براءت کا اظہار فرمادیں، ایک مرتبہ موسیٰ (علیہ السلام) نے خلوت میں غسل کرنے کے لئے کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ دیئے جب غسل سے فارغ ہو کر اپنے کپڑے لینا چاہے تو یہ پتھر (بحکم خداوندی حرکت میں آگیا) اور کپڑے لے کو بھاگنے لگا، موسیٰ (علیہ السلام) اپنا عصا اٹھا کر پتھر کے پیچھے یہ کہتے ہوئے دوڑے، ثَوْبِیْ یا حجرْ ثَوْبِی یا حَجَرْ مگر پتھر چلتا ہی رہا، یہاں تک کہ یہ پتھر ایسی جگہ جاکر ٹھہرا جہاں بنی اسرائیل کا ایک مجمع تھا، بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) کی ان عیوب سے براءت ظاہر فرمادی، جن کا گمان بنی اسرائیل کرتے تھے، پتھر وہاں پہنچ کر ٹھہر گیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے کپڑے اٹھا کر پہن لئے پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے پتھر کو عصا سے مارنا شروع کیا، اس پتھر میں موسیٰ ٰ (علیہ السلام) کی ضرب سے کئی نشان پڑگئے۔ (صحیح بخاری کتاب الانساء، ملخصًا) یہ واقعہ بیان فرماکر آپ نے فرمایا، قرآن کی اس آیت کا یہی مطلب ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جس ایذاء کا ذکر ہے اس کی تفسیر اس قصہ میں خود رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے، موسیٰ (علیہ السلام) کی مذکورہ اذیت کے قصہ کے علاوہ اور بھی اذیت کے بعض قصے مذکور ہیں، بعض رواباب سے معلوم ہوتا ہے کہ قارون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے وعظ و نصیحت سے تنگ آکر ایک فاحشہ عورت کو کچھ رشوت دے کر اس بات پر آمادہ کرلیا تھا کہ موسیٰ جب مجمع عام میں وعظ فرمائیں تو موسیٰ (علیہ السلام) پر اپنے ساتھ ملوث ہونے کا الزام لگا دے، تاکہ ان کی خوب رسوائی اور بدنامی ہوجائے اور آئندہ کبھی وعظ و نصیحت کی جرأت نہ کرسکیں، چناچہ فاحشہ عورت نے منصوبے کے مطابق مجمع عام میں موسیٰ (علیہ السلام) پر یہ الزام لگا دیا جس سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بہت تکلیف پہنچی، آیت میں یہی اذیت مراد ہے۔ ایک تیسری روایت میں اذیت سے وہ اذیت مراد ہے جو بنی اسرائیل نے یہ کہہ کر لگائی کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو قتل کردیا، اس کی صورت یہ ہوئی، ایک روز حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہما السلام) ایک پیاڑ پر تشریف لے گئے، وہاں بتقدیر الہٰی حضرت ہارون (علیہ السلام) کو موت آگئی، تو بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ پر یہ الزام لگا دیا کہ ہارون کو تم نے قتل کردیا اس لئے کہ وہ ہم سے آپ سے زیادہ محبت کرنے والے اور مہربان تھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس سے بہت اذیت پہنچی۔ (روح المعانی ملخصًا) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حوالے سے اہل ایمان کو سمجھایا جارہا ہے کہ تم ہمارے پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد ﷺ کو بنی اسرائیل کی طرح ایذاء مت پہنچاؤ، اور آپ ﷺ کی بابت ایسی بات مت کرو جسے سن کر آپ قلق اور اضطراب محسوس کریں، جیسا کہ مال غنیمت کی تقسیم کے موقع پر ایک شخص نے کہا کہ اس میں عدل و انصاف سے کام نہیں لیا گیا، جب آپ ﷺ تک یہ الفاظ پہنچے تو غضبناک ہوئے حتی کہ آپ ﷺ کا چہرۂ انور سرخ ہوگیا اور آپ نے فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) پر اللہ کی رحمت ہو، انہیں اس سے کہیں زیادہ ایذاء پہنچائی گئی لیکن انہوں نے صبر کیا۔ (بخاری شریف کتاب لانبیاء) سدید۔۔ السھم سے ماخوذ ہے یعنی جس طرح تیر کو سیدھا کیا جاتا ہے تاکہ ٹھیک نشانہ پر لگے، اسی طرح تمہاری زبان سے نکلی ہوئی بات اور تمہارا کر ادا راستی پر مبنی ہو، حق و صداقت سے بال برابر انحراف نہ ہو، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارے اعمال کی اصلاح ہوگی اور مزید مرضیات کی توفیق سے نوازے جاؤ گے، اور اگر کچھ کمی کوتاہی رہ جائے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمادیں گے۔ جب اللہ تعالیٰ اہل طاعت کا اجر وثواب اور اہل معصیت کا عذاب و عقاب بیان فرماچکے تو اب احکام شرعیہ اور ان کی صعوبت کا تذکرہ فرما رہے ہیں، امانت سے وہ احکام شرعیہ اور فرائض وواجبات مراد ہیں، جن کی ادئیگی پر ثواب اور ان سے اعراض و انکار پر عذاب ہوگا، جب یہ تکالیف شرعیہ آسمان و زمین اور پہاڑوں پر پیش کی گئیں، تو وہ ان کے اٹھانے سے ڈر گئے لیکن انسان پر یہ چیزیں پیش کی گئیں تو اطاعت الہٰی (امانت) کے اجروثواب اور اس کی فضیلت کو دیکھ کر اس بار گراں کے اٹھانے پر آمادہ ہوگیا، احکام شرعیہ کو امانت سے تعبیر کرکے اشارہ کردیا کہ ان کی ادائیگی انسانوں پر اسی طرح واجب ہے جس طرح امانت کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے۔ یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ آسمان و زمین، پہاڑ وغیرہ جو غیر ذی روح اور بظاہر بےعلم و بےشعور ہیں ان کے سامنے پیش کرنے اور ان کے جواب دینے کی کیا صورت ہوسکتی ہے، بعض حضرات نے تو اس کو مجاز اور تمثیل قرار دیا ہے، جیسے قرآن کریم نے ایک موقع پر بطور تمثیل فرمایا لَوْ اَنْزَلْنَا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلیٰ جَبَلٍ لَّرَأَیْتَہٗ خَاشِعاً مُّتَصَدِّ عًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللہ یعنی ہم اگر یہ قرآن پہاڑوں پر نازل کرتے تو تم دیکھتے کہ وہ اس کے بوجھ سے جھک جاتا اور اللہ کے خوف سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا، اس میں بطور یہ مثال سی گئی ہے، یہ نہیں کہ حقیقۃً پہاڑ پر اتارا ہو، ان حضرات نے آیت اِنَّا عَرَضْنَا کو بھی اسی طرح تمثیل ومجاز قرار دیدیا۔ مگر جمہور علماء کے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ جس آیت سے تمثیل پر استدلال کیا گیا ہے وہاں تو قرآن کریم نے حرف لَوْ سے بیان کرکے اس کا قضیہ ہونا خودواضح کردیا ہے، اور آیت اِنَّا عَرَضْنَا میں ایک واقعہ کا اثبات ہے، جس کو مجاز و تمثیل پر حمل کرنا بغیر کسی دلیل کے جائز نہیں، اور اگر دلیل میں یہ کہا جائے کہ یہ چیزیں بےحس اور بےشعور ہیں، ان سے سوال و جواب نہیں ہوسکتا تو یہ قرآن کی دوسری تصریحات سے مردود ہے، کیونکہ قرآن کریم کا واضح ارشاد ہے وَاِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ یعنی کوئی شئ ایسی نہیں کہ خدا کی حمد و تسبیح نہ کرتی ہو، اس آیت سے ثابت ہوا کہ ادراک و شعور تمام مخلوقات میں ہے یہاں تک کہ جمادات میں بھی موجود ہے، اور اس ادراک و شعور کی وجہ سے ان کو مخاطب بھی بنایا جاسکتا ہے، اور وہ جواب بھی دے سکتے ہیں۔ عرض امانت اختیاری تھا جبری نہیں : رہا یہ سوال کہ جب حق تعالیٰ نے آسمان زمین وغیرہ پر اس امانت کو خود پیش فرمایا تو ان کو انکار کی مجال کیسے ہوئی ؟ جواب : جواب یہ ہے کہ عرض امانت کے بعد ان کو اختیار دیدیا گیا تھا کہ قبول کریں یا نہ کریں، ابن کثیر نے متعدد سندوں کے ساتھ عرض امانت کی یہ تفصیل نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اول آسمان پر پھر زمین پر پھر پہاڑوں پر امانت کو اختیاری صورت میں پیش کیا کہ ہماری امانت (یعنی طاعت احکام) کا بوجھ اٹھالو اس معاوضہ کے ساتھ جو اس کے لئے مقرر ہے، ہر ایک نے سوال کیا کہ معاوضہ کیا ہے ؟ تو بتلایا گیا حق امانت (یعنی اطاعت احکام) تم نے پوری طرح ادا کیا تو تمہیں جزاء وثواب اور اللہ کے نزدیک اعزاز خاص ملے گا، اور اگر تم نے تعمیل احکام نہ کی یا اس میں کوتاہی کی تو عذاب و سزا ملے گی، ان سب بڑے بڑے اجسام نے سن کر جواب دیا کہ اے ہمارے پروردگار ہم اب بھی آپ کے تابع فرمان چل رہے ہیں، لیکن جب ہمیں اختیار دیدیا گیا تو ہم اس بار کو اٹھانے سے اپنے کو عاجز پاتے ہیں، ہم نہ ثواب چاہتے ہیں اور نہ عذاب کے متحمل ہیں۔ اور تفسیر قرطبی میں حکیم ترمذی کے حوالہ سے حضرت ابن عباس ؓ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آسمان و زمین وغیرہ پر عرض امانت اور ان کے جواب کے بعد حق تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو خطاب فرمایا اور فرمایا کہ ہم نے اپنی امانت آسمان و زمین کے سامنے پیش کی تو وہ اس بار اٹھانے سے عاجز ہوگئے، تو کیا تم اس بار امانت کو مع اس چیز کے جو اس کے ساتھ ہے اٹھاؤگے، آدم (علیہ السلام) نے عرض کیا، اے پروردگار وہ چیز جو اس کے ساتھ ہے کیا ہے ؟ جواب ملا اگر حمل امانت میں پورے اترے (یعنی اطاعت مکمل کی) تو آپ کو جزا ملے گی جو اللہ کے قرب اور رضا اور جنت کی دائمی تعمتوں کی صورت میں ہوگی، اور امانت کو ضائع کیا تو سزا ملے گی، آدم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے قرب و رضا میں ترقی ہونے کی شوق میں اس کو اٹھالیا، یہاں تک بار امانت اٹھانے پر اتنا وقت بھی گذرا تھا، جتنا ظہر سے عصر تک ہوتا ہے کہ اس میں شیطان نے ان کو مشہور لغزش میں مبتلا کردیا، اور جنت سے نکالے گئے۔ عرض امانت کا واقعہ کب پیش آیا ؟ ظاہر یہ ہے کہ عرض امانت کا واقعہ میثاق ازل یعنی عہد الست سے پہلے کا ہے، کیونکہ عہد الست بربکم اسی بار امانت کی پہلی کڑی اور اپنے منصب کا حلف اٹھانے کے قائم مقام ہے۔ انہٗ ۔۔ جھولاً ظلوم سے مراد اپنے نفس پر ظلم کرنے والا (یعنی خود کو مشقت میں ڈالنے والا) اور جہول سے مراد ہے انجام سے ناواقف اور بیخبر ، اس جملہ سے بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ مطلقاً انسان کی مذمت میں آیا ہے، کہ اس نادان نے اپنی جان پر ظلم کیا کہ اتنا بڑا بار اٹھالیا جو اس کی طاقت سے باہر تھا، مگر قرآنی تصریحات کے مطابق واقعہ ایسا نہیں ہے، کیونکہ انسان سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہوں گے یا پوری نوع انسانی ؟ ان میں آدم (علیہ السلام) تو نبی معصوم ہیں انہوں نے جو بار اٹھایا تھا اس کا حق بھی یقینی طور پر ادا کردیا، اسی کے نتیجے میں ان کو خلیفہ اللہ بنا کر زمین پر بھیجا گیا، ان کو فرشتوں کا مسجود بنایا گیا، اور آخرت میں ان کا مقام فرشتوں سے بھی بلند وبالا، ارفع واعلیٰ ہے۔ اور اگر نوع انسانی ہی مراد ہو تو اس پوری نوع میں لاکھوں تو انبیاء علیہم اسلام ہیں اور کروڑوں وہ صالحین اور اولیاء اللہ ہیں جن پر فرشتے بھی رشک کرتے ہیں، جنہوں نے اپنے عمل سے ثابت کردیا کہ وہ اس امانت الہٰیہ کے اہل اور مستحق تھے، انہیں حق امانت کو ادا کرنے والوں کی بناء پر قرآن حکیم نے نوع انسانی کو اشرف المخلوقات ٹھہرایا وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ اس سے ثابت ہوا کہ نہ آدم (علیہ السلام) قابل مذمت ہیں نہ پوری نوع انسانی، اسی لئے حضرات مفسرین نے فرمایا کہ یہ جملہ مذمت کے لئے نہیں بلکہ اکثر افراد نوع انسانی کے اعتبار سے بیان واقعہ کے طور پر ارشاد ہوا ہے، مطلب یہ ہے کہ نوع انسانی کی اکثریت ظلوم و جہول ثابت ہوئی جس نے اس امانت کا حق ادا نہ کیا، اور خسارہ میں پڑے چونکہ اکثریت کا یہ حال تھا اس لئے اس کو نوع انسانی کی طرف منسوب کردیا گیا۔ (قرطبی) خلاصہ یہ کہ آیت میں ظلوم و جہول خاص ان افراد انسانی کو کہا گیا ہے جو احکام شرعیہ کی اطاعت میں پورے نہ اترے، اور امانت کا حق ادا نہ کیا یعنی امت کے کفار و مشرکین وفساق ومنافقین، یہ تفسیر حضرت ابن عباس ؓ اور ابن جبیر وغیرہ سے منقول ہے۔ (قرطبی) اور بعض حضرات نے کہا کہ ظلوم و جہول بھولے بھالے کے معنی میں بطور محبانہ خطاب کے ہے، کہ اس نے اللہ جل شانہ کی محبت اور اس کے مقام قرب کی جستجو میں انجام کو نہیں سوچا اس طرح یہ لفظ پوری نوح انسانی کے لئے بھی ہوسکتا ہے تفسیر مظہری میں حضرت مجدد الف ثانی اور دوسرے صوفیاء کرام سے اسی طرح کا مضمون منقول ہے۔ (معارف) تم بحمداللہ
Top