Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 123
لَیْسَ بِاَمَانِیِّكُمْ وَ لَاۤ اَمَانِیِّ اَهْلِ الْكِتٰبِ١ؕ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا یُّجْزَ بِهٖ١ۙ وَ لَا یَجِدْ لَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا
لَيْسَ : نہ بِاَمَانِيِّكُمْ : تمہاری آرزؤوں پر وَلَآ : اور نہ اَمَانِيِّ : آرزوئیں اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب مَنْ يَّعْمَلْ : جو کرے گا سُوْٓءًا : برائی يُّجْزَ بِهٖ : اس کی سزا پائے گا وَلَا يَجِدْ : اور نہ پائے گا لَهٗ : اپنے لیے مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا وَلِيًّا : کوئی دوست وَّلَا نَصِيْرًا : اور نہ مددگار
نہ تمہاری امیدوں پر مدار ہے اور نہ اہل کتاب کی امیدوں پر جو کوئی برا کام کرے گا اس کی سزا پاویگا اور نہ پاوے گا اللہ کے سوا اپنا کوئی حمایتی اور نہ کوئی مددگار
معارف و مسائل
مسلمانوں اور اہل کتاب کے درمیان ایک مفاخرانہ گفتگو
لیس بامانیکم ولا امانی اھل الکتب الخ ان آیات میں پہلے ایک مکالمہ اور گفتگو کا ذکر ہے جو مسلمانوں اور اہل کتاب کے درمیان ہوئی ہے اور پھر اس مکالمہ پر محاکمہ کیا گیا ہے، فریقین کو صحیح راہ ہدایت بتلائی گئی، آخر میں اللہ کے نزدیک مقبول اور افضل و اعلی ہونے کا ایک معیار بتلا دیا گیا جس کو سامنے رکھا جائے تو کبھی انسان غلطی اور گمراہی کا شکار نہ ہو۔
حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ کچھ مسلمانوں اور اہل کتاب کے درمیان مفاخرت کی گفتگو ہونے لگی، اہل کتاب نے کہا کہ ہم تم سے افضل و اشرف ہیں، کیونکہ ہمارے نبی تمہارے نبی سے پہلے اور ہماری کتاب تمہاری کتاب سے پہلے ہے، مسلمانوں نے کہا کہ ہم تم سب سے افضل ہیں، اس لئے کہ ہمارے نبی خاتم النبین ہیں اور ہماری کتاب آخری کتاب ہے جس نے پہلی سب کتابوں کو منسوخ کردیا ہے اس پر یہاں یہ آیت نازل ہوئیلیس بامانیکم ولا امانی اھل الکتب الخ یعنی یہ تفاخر اور تعلق کسی کے لئے زیبا نہیں اور محض خیالات اور تمناؤں اور دعوؤں سے کوئی کسی پر افضل نہیں ہوتا، بلکہ مدار اعمال پر ہے کسی کا نبی اور کتاب کتنی ہی افضل و اشرف ہو اگر وہ عمل غلط کرے گا تو اس کی ایسی سزا پائے گا کہ اس سے بچانے والا اس کو کوئی نہ ملے گا۔
یہ آیت جب نازل ہوئی تو صحابہ کرام پر بہت شاق ہوئی، امام مسلم، ترمذی، نسائی اور امام احمد رحمہم اللہ نے حضرت ابوہریرہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے فرمایا جب یہ آیت نازل ہوئی من تعمل سوء ا یجزبہ ”یعنی جو کوئی کچھ برائی کرے گا اس کی سزا دی جائے گی۔“ تو ہم سخت رنج و غم اور فکر میں پڑگئے اور رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ اس آیت نے تو کچھ چھوڑا ہی نہیں، ذرا سی برائی بھی ہوگی تو اس کو جزا ملے گی، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ فکر میں نہ پڑو اپنی طاقت وقدرت کے مطابق عمل کرتے رہو، کیونکہ (جس سزا کا یہاں ذکر ہے ضروری نہیں کہ وہ جہنم ہی کی سزا ہو بلکہ) تمہیں دنیا میں جو بھی کوئی تکلیف یا مصیبت پیش آتی ہے یہ تمہارے گناہوں کا کفارہ اور برائی کی جزا ہوتی ہے، یہاں تک کہ اگر کسی کے پاؤں میں کانٹا لگ جائے تو وہ بھی کفارہ گناہ ہے۔
اور ایک روایت میں ہے کہ مسلمان کو دنیا میں جو بھی کوئی غم یا تکلیف یا بیماری یا فکر لاحق ہوتی ہے وہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہے۔
جامع ترمذی اور تفسیر ابن جریر وغیرہ نے حضرت صدیق اکبر ؓ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جب یہ آیت من یعمل سوء یجزبہ ان کو سنائی تو ان پر یہ اثر یہ ہوا جیسے کمر ٹوٹ گئی ہو رسول کریم ﷺ نے یہ اثر یکھ کر فرمایا کیا بات ہے ؟ تو صدیق اکبر نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے کوئی برائی نہیں کی اور جب ہر برائی کی جزا ملنی ہے تو ہم میں سے کون بچے گا ؟ آپ نے فرمایا اے ابوبکر ! آپ اور آپ کے مومن بھائی کوئی فکر نہ کریں، کیونکہ دنیا کی تکالیف کے ذریعہ آپ لوگوں کے گناہوں کا کفارہ ہوجائیگا۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ کیا آپ بیمار نہیں ہوتے ؟ کیا آپ کو کوئی مصیبت اور غم نہیں پہونچتا ؟ صدیق اکبر نے عرض کیا بیشک سب چیزیں پہنچتی ہیں آپ نے فرمایا بس یہی جزاء ہے تمہارے سیات کی۔
اور حضرت عائشہ صدیقہ کی ایک حدیث میں ہے جس کو ابو داؤد وغیرہ نے روایت کیا ہے کہ بندہ کو بخار یا تکلیف پہونچتی ہے یا کانٹا لگتا ہے تو اس کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ کوئی شخص اپنی کوئی چیز ایک جیب میں تلاش کرے مگر دوسری جیب میں ملے، اتنی مشقت بھی اس کے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت نے مسلمانوں کو بھی یہ ہدایت دی ہے کہ محض دعوؤں اور تمناؤں میں نہ لگیں، بلکہ عمل کی فکر کریں کیونکہ کامیابی صرف اس سے نہیں کہ تم فلاں نبی یا فلاں کتاب کے نام لینے والے ہو، بلکہ اصل فلاح اس میں ہے کہ اس پر صحیح ایمان اور اس کے مطابق اعمال صالح کے پابند رہو،
Top