Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 123
لَیْسَ بِاَمَانِیِّكُمْ وَ لَاۤ اَمَانِیِّ اَهْلِ الْكِتٰبِ١ؕ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا یُّجْزَ بِهٖ١ۙ وَ لَا یَجِدْ لَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا
لَيْسَ : نہ بِاَمَانِيِّكُمْ : تمہاری آرزؤوں پر وَلَآ : اور نہ اَمَانِيِّ : آرزوئیں اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب مَنْ يَّعْمَلْ : جو کرے گا سُوْٓءًا : برائی يُّجْزَ بِهٖ : اس کی سزا پائے گا وَلَا يَجِدْ : اور نہ پائے گا لَهٗ : اپنے لیے مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا وَلِيًّا : کوئی دوست وَّلَا نَصِيْرًا : اور نہ مددگار
نہیں ہے تمہاری آرزئوں کے ساتھ اور نہ اہل کتاب کی آرزئوں کے ساتھ بلکہ جو شخص برا عمل کرے گا اس کو بدلہ دیا جائے گا اس کا ، اور نہ پائے گا وہ پنے لیے اللہ کے سوا کسی کو کار ساز اور نہ کوئی مدد گار
ربط آیات گزشتہ درس میں شرک کی مذمت اور شیطان کی دشمنی ، کارگزاری اور بہکاوے کے مختلف طریقوں کا ذکر ہوچکا ہے۔ شرک تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ اور شیطان انسان کو گمراہ کرنا ے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتا ہے۔ شیطان کے اتباع میں شرک کرنے والے لوگ دائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ اس سے پہلے منافقین اور ان کی حمایت کرنے والوں کی مذمت بھی بیان ہوچکی ہے اہل کتاب گمراہ ہو کر غلط راستے پر چل نکلے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بھی متنبہ کیا کہ اگر ان میں بھی اہل کتاب جیسی خرابیاں پیدا ہوگئیں تو وہ بھی ناکام رہیں گے۔ اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ کسی جماعت یا فرقے کے ساتھ خالی نسبت کچھ کام نہ آئے گی بلکہ اصل چیز نیک اعمال ہیں ، جو ان کو انجم دے گا وہ کامیاب ہوگا۔ خالی نسبت ارشاد ہوتا ہے لیس بامانیکم اے اہل ایمان ! کامیابی کا دارومدار تمہاری ارزئوں پر نہیں ہے ۔ تمہاری خواہش کا پورا ہونا ضروری نہیں ہے ولا امانی اھل الکتب اور نہ اہل کتاب کی تمنائوں پر نیکی یا بدی کا انحصار ہے کہ جیسا وہ آرزئو کرتے ہیں ، ویسا ہی ہوگا۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ جزا وسزا کا مدار اچھے اور برے کام پر ہے من یعمل سوئً جو کوئی برا عمل کرے گایجزبہ اسے اس کا بدلہ ضرور ملے گا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرکے کوئی شخص اس کی پکڑ سے بچ نہیں سکتا بلکہ اسے برائی کا صلہ ضرور ملے گا۔ ولایجدلہ من دون اللہ ولیاً ولا نصیراً پھر وہ اپنے لیے اللہ کے سوا کوئی کار ساز اور مددگار نہیں پائے گا۔ لہٰذا قانون یہی ہے کہ جب تک حقیقت میں موجود ہو محض خالی نسبت قطعاً مفید نہیں ہوسکتی۔ یہودی اپنی نسبت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف کرتے ہیں مگر وہ نہ تورات پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی موسیٰ (علیہ السلام) کی لائی ہوئی شریعت پر۔ انہوں نے تو الٹا کتاب و شریعت کو بگاڑ دیا ہے ، ان میں تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں اور اب ان کی خالی خولی آرزوئیں ہی رہ گئی ہیں کہ لن یدخل الجنۃ الامن کان ھودا اور نصری یعنی جنت میں جانے کا حق اسی کو ہے جو یہودی ہے یا عیسائی ہے ۔ یہودی کہتے ہیں ہمارے بغیر جنت میں کوئی نہیں داخل ہوسکتا اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہ ہمارا حق ہے بعض یہودی یہ بھی کہتے تھے کہ اگر ہم دوزخ میں گئے بھی تو صرف اتنے دن جتنے دنوں ہمارے بڑوں نے بچھڑے کی پوجا کی تھی یعنی چالیس دن اور دوسری بات یہ کہ ہم نبیوں کی اولاد ہیں۔ ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب (علیہما السلام) کے خاندان سے ہیں اس لیے نحن ابتوا اللہ واحباء ہ ہم اللہ کے فرزند اور اس کے محبوب ہیں ، ہم جو چاہیں کرتے پھریں ، ہم سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی اور نہ ہمیں کوئی سزا ملے گی۔ ہم تو جنت کے ٹھیکیدار ہیں۔ اللہ نے جنت ہمارے لیے ہی تیا رکی ہے۔ یہی ان کا زعم باطل تھا۔ ہنود کا بھی یہی حال ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ برہمن اللہ کے گھر اور نجات کے مالک ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو چار قوموں میں تقسیم کرلیا ہے یعنی برہمن کشتری ، دیش اور شودر۔ وہ کہتے ہیں کہ نجات یافتہ یہی چار قومیں ہیں۔ باقی سب ملیچ یعنی نجس ہیں اور ان کو کبھی نجات حاصل نہیں ہوگی۔ غرض یہ کہ ہندو بھی اسی نادانی کا شکار ہیں۔ اُدھر نصاری بھی اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ جنت صرف انہی کے لیے ہے۔ وہ بھی اپنے آپ کو انبیاء کی اولاد اور اللہ کے محبوب تصو ر کرتے ہیں وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ اپنی نسبت تو جوڑتے ہیں مگر نہ ان کی انجیل پر عمل ہے اور ان کی شریعت پر۔ وہ بھی اللہ کی کتاب میں تحریف کے مرتکب ہوئے۔ عیسائی ایک مزید خوش فہمی کا شکار ہیں۔ کہتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے صلیب پر چڑھ کر ہمارے گناہوں کا کفارہ ادا کردیا ہے ، اب ہم کچھ بھی کرتے پھریں۔ ہم سے مواخذہ نہیں ہوگا۔ یہ سب ان کی آرزوئیں اور خام خیالیاں ہیں جنہیں سینے سے لگائے بیٹھے ہیں ۔ حالانکہ نجات کا دارومدار اس خالی نسبت سے نہیں بلکہ ایمان اور اعمال صالح پر ہے۔ حضرت مولانا شاہ عبدالقادر (رح) نے اپنے ترجمہ قرآن پاک کے حاشیے میں ایک فقرہ لکھا ہے کہ جس طرح یہود ونصاریٰ انبیاء کے ساتھ نسبت کی بنا پر خوش فہمی میں مبتلا ہیں اسی طرح اکثر مسلمان بھی اسی زعم میں مبتلا ہیں کہ ہم افضل الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی امت ہیں۔ لہٰذا ہم کچھ بھی کریں حضور ﷺ ہماری سفارت کرکے ہمیں جنت میں لے جائیں گے اور پھر مسلمانوں میں جو چھوٹے چھوٹے فرقے اور گروہ ہیں ، ان میں سے ہر ایک محض اس لیے جنت کا دعویدار ہے کہ فلاں فرقے یا گروہ کا رکن ہے۔ شیعہ حضرات کا ایمان یہ ہے کہ امام حسین ؓ کے ساتھ نسبت ہی مدار فلاح ہے۔ محرم میں ماتمی لباس پہن لیا ، تعزیہ نکال دیا مجلس کرادی ، ماتم کرلیا تو بس نجات حاصل ہوگئی۔ علی ہذا لقیاس دوسرے فرقے بھی اس قسم کا دعوی ٰ کرتے ہیں اس کے بعد جو چھوٹے چھوٹے گروہ ہیں جیسے چشی ، قادری ، دیوبندی ، اہل حدیث بھی محض اپنے اپنے فرقہ سے منسلک ہونے کی بنا پر جنت میں جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک فرقہ اپنے سوا کسی دوسرے کی نجات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے اصول کے طور پر بات سمجھادی کہ محض نسبت سے کبھی فائدہ نہیں ہوگا جب تک کہ ایمان اور نیکی کی حقیقت موجود نہ ہو ایک شخص چشتی کہلاتا ہے ، اپنے نام کے ساتھ بڑے بڑے القاب لکھتا ہے۔ مگر مشائخ اہل چشت کا اتباع نہیں کرتا تو اسے خالی نسبت کیا فائدہ دیگی۔ نقشبندی حضرات بھی بڑے کاملین بزرگ تھے مگر ان کے نام لیوا ان کے رستہ پر کہاں تک چل رہے ہیں ا ب گورپرستی ، عرس بازی ، قوالی اور رسومات باطلہ کا نام قادریت رکھ دیا گیا ہے ، جب تک شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) کے طریقے پر نہیں چلیں گے ، محض نام قادری رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اسی طرح شہاب الدین سہروردی (رح) کے طریقے پر چلنا کامل درجے کا اخلاص اور اتباع شریعت وسنت ہے۔ مگر ان کے نام لیوا اپنے دعویٰ میں کہاں تک سچے ہیں۔ غرض یہ کہ عمل کے بغیر خالی نسبت محض خام خیالی ہے۔ خاندانی تفوق یہودیوں میں خاندانی تفوق کا زعم تھا۔ ا ن کا دعویٰ تھا کہ ان کے جدامجد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دوزخ کے دروازے پر کھڑے ہوں گے اور کسی ختنہ شدہ اسرائیلی کو دوزخ میں نہیں جانے دیں گے اس قسم کی خاندانی نسبت بعض مسلمانوں میں بھی پائی جاتی ہے بعض لوگ سادات کی طرف اپنی نسبت کرتے ہیں۔ اور بعض دیگر بزرگوں کی طرف حالانکہ خالی نسبت کچھ کام نہ آئے گی ، گولڑا شریف والے بزرگ خود سادتا خاندان سے تعلق رکھتے ہیں مگر انہوں نے یہ عجیب و غریب مسئلہ بیان کردیا کہ کسی سید زادی کا نکاح امتی کے ساتھ نہیں ہوسکتا ، حالانکہ یہ سو فیصد غلط مسئلہ ہے۔ اسی طرح بعض لو گ پیر زادے اور بزرگ زادے ہونے کی بناء پر اپنا تفوق جتلاتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ کچھ بھی کرتے رہیں ، بزرگ ان کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل کردیں گے ، یہ سب لوگوں کی آرزوئیں اور خواہشات ہیں ، حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ جب تک کوئی اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر نہیں چلے گا۔ خالی نسبت سے کام نہیں چلے گا۔ یہودی ہوں یا نصرانی یا نادان مسلمان اس قسم کے تصورات محض خام خیالی ہے۔ کوئی شخص اپنے آپ کو سو مرتبہ حنفی کہے ، جب تک امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے شاگردان رشید کے طریقے پر نہیں چلے گا ، اس کا دعویٰ باطل ہے کوئی لاکھ اہل حدیث یا سلفی ہونے کا دعویٰ کرے جب تک محدثین کے نقش قدم پر نہیں چلتا۔ اہل حدیث نہیں ہے ، اسی طرح کوئی شافعی ہونے کا دعویدار ہے یا مالکی اور حنبلی کہلاتا ہے۔ تو اسے اپنے عمل کے ذریعے اپنے دعویٰ کا ثبوت پیش کرنا ہوگا ، ورنہ یہ خالی نسبتیں کسی کام نہ آئیں گی۔ اس نسبت کو ذرا وسیع کریں تو کئی لوگ ڈاکٹر اقبال مرحوم کے گرویدہ نظر آئیں گے ، وہ ان کے نام پر ہی پل رہے ہیں۔ بعض مسٹر محمد علی جناح مرحوم کے نام لیوا ہیں۔ ان کا نام تو بڑے زور شور سے لیتے ہیں مگر طور طریقہ ان کے خلاف ہے۔ نہ ان ہستیوں جیسا خلوص ہے ، نہ عمل اور نہ بےغرضی ، مگر نام لے کر زندہ ہیں۔ بعض لوگ شاہ اسماعیل شہید (رح) کا نام بڑی عقیدت سے لیتے ہیں ، ان کے نام پر کانفرنسیں کرتے ہیں مگر اپنا عمل ان سے مطابقت نہیں رکھتا۔ غرض ! یہ سب جھوٹے دعاوی اور آرزوئیں ہیں جن کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مدار فلاح نہ تمہاری تمنائوں پر ہے اور نہ اہل کتاب کی آرزئوں پر ، بلکہ جو کوئی برائی کا ارتکاب کرے گا ، اسے اس کا بدلہ ضرور دیا جائے گا۔ شاہ ولی اللہ کا فلسفہ اما م شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا قانون یہ ہے۔ لایدع عاصیاً وہ کسی مجرم کو دنیا اور آخرت میں سزا دئیے بغیر نہیں چھوڑتا۔ دنیا کی سزا اسباب کو معطل کیے بغیر دی جاتی ہے یعنی دنیا میں اسباب کے دوران ہی سزا دی جاتی ہے۔ اور پھر اگلے جہان میں جب اسباب کا مسئلہ منقطع ہوجائے گا تو پھر قطعی اور اٹل سزا ملے گی ، چناچہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ بات سمجھا دی ہے کہ خالی نسبت قطعاً مفید نہیں ہوگی۔ نجات کا دارومدار عمل پر ہے لہٰذا جو کوئی برا عمل کرے گا اس کا بدلہ پائے گا۔ نیکی کی جزا ومن یعمل من الصلحت اور جو کوئی اچھا عمل کرے گا۔ من ذکراونثیٰ خواہ وہ مرد ہو یا عورت وھو مومن بشرطیکہ وہ مومن ہو ، کیونکہ ایمان ہی اصل الاصول ہے۔ نیکیوں کی جڑ اور بنیاد ایمان ہے۔ اگر نیکی کے ساتھ اعمال صالحہ انجام دیتا ہے فائولئک یدخلون الجنۃ تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے ولایظمون نقیراً اور ان کے ساتھ ایک تل کے برابر بھی زیادتی نہیں کی جائے گی۔ بات وہی ہے کہ نجات کا مدار نیکی ، ایمان اور عمل پر ہے۔ اس آیت کریمہ میں جزائے عمل کے سلسلہ میں مردوں اور عورتوں کو یکساں حیثیت دی گئی ہے۔ شریعت کے احکام محض مردوں کے لیے نہیں بلکہ عورتوں پر اسی طرح لازم ہیں ، لہٰذا شریعت اور قانون سب کے لیے یکساں ہے اور ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق بدلہ دیا جائے گا۔ البتہ مردوزن کے دائرہ کار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرق رکھا ہے۔ عورتیں اپنے فرائض گھر کے اندر انجام دینے کی پابند ہیں جب کہ مرد باہر کے امور سے عہدہ برا ہوتے ہیں۔ باقی فرائض ، واجبات وغیرہ جس طرح مرد پر لاگو ہیں اسی طرح عورت پر بھی ان کی مکلف ہے۔ بہترین دین اس کے بعد فرمایا ومن احسن دینا ممن اسلم وجھہ للہ اس شخص سے اچھا دین کس کا ہوسکتا ہے ، جس نے اپنے چہرے کو اللہ تعالیٰ کے تابع کردیا۔ چہرہ چونکہ انسانی جسم میں معزز ترین حصہ ہوتا ہے اس لیے چہرہ کا نام لیا گیا ہے۔ تاہم اس سے مراد پورا جسم انسانی ہے۔ اور مقصد یہ ہے کہ انسان مکمل طور پر اللہ کے رضا کے تابع ہوجائے اور اپنے آپ کو ہمہ تن خدا تعالیٰ کی طرف جھکادے۔ چہرے کو تابع کرنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ انسان میں غایت درجے کا اخلاص پایا جائے۔ اور اخلاص کا معنی یہ ہے کہ بندہ ہر کام خدا تعالیٰ کی رضا کے لیے انجام دے اور رضائے الٰہی سے مراد یہ ہے کہ اس کا عقیدہ پاک ہو۔ خدا کی وحدانیت پر صحیح ایمان ہوگا تو اخلاص بھی پیدا ہوگا۔ اخلاص اور توحید کے مسائل حوامیم میں سمجھائے گئے ہیں۔ ” فاعبدواللہ مخلصین لہ الدین کا کیا مطلب ہے ؟ یعنی خاص اسی وحدہ لاشریک کی عبادت کرو اس میں کسی قولی ، فعلی شرک کی ملاوٹ نہیں ہونی چاہیے اخلاص توحید سے آتا ہے اگر اخلاص نہیں ہوگا تو نہ عبادت قبول ہے اور نہ فلاح نصیب ہوگی۔ فرمایا بہترین دین کی ایک صفت تو اخلاص ہے اور دوسری وھومحسن انسان نیکی کرنے والا ہو اور محسن کا مطلب یہ بھی ہے کہ عامل کا طریق کار درست ہو۔ جب تک عمل حضور ﷺ کی سنت اور شریعت کے مطابق نہیں ہوگا۔ مقبول نہیں ہوگا…………… کیونکہ ارشاد مبارک ہے من عمل عملاً لیس علیہ امرنا فھورد یعنی جو عمل ہمارے طریقے کے مطابق نہیں وہ مردود ہے۔ اتباع ملت ابراہیم خلیل اللہ فرمایا بہترین دین دار وہ ہے جس میں اخلاص پایا جائے اور اس کا عمل سنت نبوی کے مطابق ہو۔ اور تیسری چیز یہ کہ واتبع ملۃ ابراھیم حنیفاً وہ ملت ابراہیم کا پیروکار ہ۔ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی صفت یہ ہے کہ وہ حنیف یعنی وہر طرف سے کٹ کر ایک طرف لگنے والے ہیں۔ حنیف وہ ہے ، جو اللہ کی توحید پر ایمان رکھتا ہے۔ نماز میں خانہ کعبہ کی طرف رخ کرتا ہے۔ ختنہ کرتا ہے ، قربانی کرتا ہے اور شرک سے بیزار ہے یہ تمام صفات ابراہیم (علیہ السلام) میں پائی جاتی تھیں۔ اس لیے اللہ نے ان کی ملت کے اتباع کا حکم دیا اور فرمایا وما امروا الا لیعبدوا اللہ مخلصین لہ الدین حنفاً ء اور ان لوگوں کو یہی حکم دیا گیا کہ وہ خالص اللہ کی عبادت کریں۔ اور حنیف بن جائو اور شرک کرنے والے نہ بنو اللہ نے یہی بات تمام انبیاء کی زبان کے ذریعے تمام لوگوں تک پہنچائی کہ عبادت خالص اللہ کی کرو۔ غرض یہ کہ ابراہیم (علیہ السلام) سب سے بڑے موحد اور حنیف تھے لہٰذا اللہ نے ان کی ملت کی پیروی کا حکم دیا۔ ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی حنیفیت کا ثمرہ یہ دیا واتخذ اللہ ابرھیم خلیلاً کہ انہیں اپنا خلیل بنالیا اور خلیل کا معنی دوست ہے۔ اور فلاح اس کو نصیب ہوگی جو یا تو خود خلیل ہو۔ جیسے ابراہیم (علیہ السلام) یا پھر خلیل کے طریقے پر ہو۔ اسی لیے ملت ابراہیمی کے اتباع کا حکم دیا گیا ۔ مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے حضور ﷺ نے فرمایا اتخذ اللہ صاحبکم خلیلاً اللہ نے تمہارے صاحب یعنی خود مجھے اپنا خلیل بنالیا ہے اور ترمذی شریف میں حبیب کا لفظ بھی آتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا یاد رکھو ! میں کہتا ہوں کہ میں اللہ کا حبیب ہوں۔ میں یہ فخر سے نہیں کہتا ، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ اس نے مجھے اپنا حبیب یعنی پیارا بنایا۔ یہاں پر خلت دو معنوں میں استعمال ہوئی ہے۔ اس کا عام فہم معنی تو دوستی ہے جس کا تعلق دل کی انتہائی محبت کے ساتھ ہوتا ہے۔ چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) اس لحاظ سے خلیل ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ سے غایت درجہ کی محبت تھی۔ جس کی وجہ سے وہ تعمیل حکم میں ہمیشہ مستعد رہتے تھے۔ اور خلیل کا دوسرا معنی یہ ہے کہ آپ نے اپنی کسی حاجت کو اللہ کے سوا کسی دوسرے کے سامنے پیش نہیں کیا۔ چناچہ مشہور واقعہ ہے کہ جب آپ کو آگ میں ڈالا جارہا تھا تو امتحان کے لیے فرشتے آئے اور عرض کیا ، کہ ضرورت ہو تو ہم آپ کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے صاف فرمادیا ، کہ مجھے اللہ کے سوا کسی کی مدد درکار نہیں۔ فرشتے نے کہا ، پھر اللہ ہی سے مدد کے لیے دعا کریں تو آپ نے فرمایا ، میرے سوال سے اللہ کا علم زیادہ وسیع ہے۔ وہ جانتا ہے کہ میں کس حال میں ہوں ، لہٰذا مجھے بتانے کی بھی ضرورت نہیں۔ گویا آپ افوض امری الی اللہ کے پورے پورے مصداق تھے۔ غرض یہ کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی خلت اس وجہ سے ہے کہ آپ کے دل میں اللہ کی انتہائی محبت اور تعظیم تھی اور دوسرے یہ کہ انہوں نے تمام حاجات صرف اللہ کے سامنے پیش کیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح حضور خاتم النبین ﷺ بھی اللہ کے خلیل ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر میں کسی انسان کو اپنا خلیل بناتا تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو بناتا ، مگر تمہارے صاحب کو اللہ نے اپنا خلیل بنالیا ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ دل کا خانہ خاص صرف خدا تعالیٰ کے لیے ہے۔ اور حبیب کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو حضور نبی کریم ﷺ سے خصوصی محبت ہے جس کی وجہ سے آپ حبیب اللہ بھی ہیں اور پھر یہ بھی ہے کہ جو خلیل کے راستے پر ہوگا ، وہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہوگا۔ ابراہیم (علیہ السلام) خلیل اللہ ہیں۔ ان کی ملت حقیقت میں ملت اسلامیہ ہے یا ملت محمدیہ ہے ، معنی ایک ہی ہے لہٰذا اللہ کے نزدیک دین اس شخص کا پسندیدہ ہوگا جس میں اخلاص پایا جائے اور اس کا عمل شریعت کے مطابق ہو ، ایسا شخص ملت ابراہیمی کا پیروکار سمجھا جائے گا۔ تصرف اور احاطہ فرمایا یاد رکھو وللہ مافی السموت ومافی الارض اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وکان اللہ بکل شئی محیطاً اور اللہ ہر چیز کا محیط یعنی احاطہ کرنے والا ہے۔ اللہ کی ان دو صفات میں اکثر لوگ بہک جاتے ہیں۔ ایک تصرف یہ ہے کہ جب زمین وآسمان کی ہر چیز کا مالک خدا ہے تو پھر کائنات میں تصرف بھی اسی کا ہے مگر اکثر لوگ اللہ کی صفت تصرف میں شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور تصرف میں قبروالوں ، فرشتوں یا جنوں کو بھی شریک کرتے ہیں۔ حالانکہ متصرف فی الامور صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اللہ کی دوسری صفت یہاں پر محیط بیان کی گئی ہے یعنی ہر چیز کا احاطہ کرنا اور انہیں قابو میں رکھنا ، اللہ ہی کے ساتھ خاص ہے۔ احاطہ علم کے ساتھ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ” بکل شئی علیم ہے۔ ذرے ذرے کا علم اسی کے پاس ہے اور قدرت کے اعتبار سے بھی ہر چیز پر قبضہ اللہ ہی کا ہے۔ اس کے حکم کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ لہٰذا محیط بھی وہی ہے۔ اور متصرف بھی وہی ہے۔ اب جدید سائنس دانوں نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے کہ سبب اور مسبب کا علاقہ قطعی نہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر ہر ذرہ اپنے مالک کے حکم کا منتظررہتا ہے۔ جس وقت جو حکم ہوا اسی کی تعمیل کرتا ہے۔ پہلے تو سائنسدان اسے خلاف عقل سمجھتے تھے مگر اب مان گئے ہیں کہ کسی چیز کا سبب قطعی نہیں۔ یعنی یہ ضروری نہیں کہ ہر سبب ہمیشہ ایک ہی نتیجہ پیدا کرے بلکہ ایک سبب کے مختلف مواقع پر مختلف نتائج بھی ہوسکتے ہیں۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ اگر چہ اللہ تعالیٰ نے سبب اور مسبب (CAUSE AND EFFECT) کو قائم رکھا ہے اور عام طور پر اس اصول نہیں توڑتا ، مگر جب چاہے اس کو توڑ بھی دیتا ہے۔ آگ کا کام جلانا ہے مگر بعض اوقات نہیں جلاتی ، پانی پیاس نہیں بجھاتا ، تلوار نہیں کاٹتی ، گولی اپنا اثر نہیں دکھاتی وغیرہ وغیرہ تو معلوم ہوا کہ تصرف اللہ کے قبضے میں ہے اور وہی احاطہ کرنے والا ہے۔ چونکہ اکثر لوگ انہی صفات میں شرک کرتے ہیں۔ لہٰذا اللہ نے آخر میں انہی دو صفات کا ذکر کرکے لوگوں کو توحید کا درس یاد کرایا ہے۔
Top