Jawahir-ul-Quran - Yaseen : 17
وَ مَا عَلَیْنَاۤ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ
وَمَا : اور نہیں عَلَيْنَآ : ہم پر اِلَّا : مگر الْبَلٰغُ : پہنچا دینا الْمُبِيْنُ : صاف صاف
اور جس کو ہم بڑی عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں تو کیا یہ سمجھتے ہیں ؟
آیت نمبر 68 تا 83 ترجمہ : اور جس کی ہم عمر دراز کرکے معمر (سن رسیدہ) کردیتے ہیں تو اس کی تخلیق کو پلٹ دیتے ہیں اور ایک قراءت میں تنکیس سے تشدید کے ساتھ ہے، تو وہ اپنی قوت و شباب کے بعد کمزور اور بوڑھا ہوجاتا ہے، تو کیا یہ سمجھتے نہیں کہ جو ذات اس بات پر کہ جو ان کو معلوم ہے قادر ہے، وہ بعث بعد الموت پر بھی قادر ہے کہ وہ ایمان لے آئیں، اور ایک قراءت میں تاء کے ساتھ ہے، اور ہم نے اس کو شعر گوئی نہیں سکھائی، یہ کافروں کی اس بات کا جواب ہے کہ محمد ﷺ کو کچھ قرآن کے نام سے پیش کرتے ہیں، وہ شعر ہے اور نہ گوئی آپ کی شایان شان ہے جس کو وہ پیش کرتے ہیں وہ تو محض نصیحت ہے، اور احکام وغیرہ کو ظاہر کرنے والا قرآن ہے، تاکہ اس شخص کو قرآن کے ذریعہ جو زندہ ہو متنبہ کرے یعنی جو اس سے کہا جائے اسے سمجھتا ہو اور وہ اہل ایمان ہیں، اور کافروں پر عذاب کا وعدہ ثابت ہوجائے، اور کافر مردوں کے مانند ہیں (اس لئے کہ) جو بات ان سے کہی جاتی ہے اس کو نہیں سمجھتے کیا یہ لوگ اس بات کو نہیں جانتے کہ ہم نے اپنے دست قدرت سے بلا شریک و معین کے پیدا کی ہوئی چیزوں میں سے منجملہ دیگر لوگوں کے ان کے لئے جانور وہ اونٹ گائے اور بکریاں ہیں پیدا کئے جن کے وہ مالک بنے ہوئے ہیں قابو میں کردیا ان میں سے بعض ان کی سواریاں ہیں اور بعض کو ان میں سے کھاتے ہیں اور ان کے لئے ان میں اور منافع بھی ہیں، جیسا کہ ان کی صوف، رواں اور ان کے بال اور پینے کی چیزیں ہیں، (مثلاً ) ان کا دودھ یا دودھ کا محل (تھن) مشارب مشرَبٌ کی جمع ہے بمعنی شُربٌ کیا لوگ اپنے اوپر جانوروں کے ذریعہ احسان کرنے والے کا شکر ادا نہیں کرتے کہ ایمان لے آئیں، یعنی انہوں نے ایسا نہیں کیا اور انہوں نے غیر اللہ (یعنی) بتوں کو معبود بنالیا ہے کہ ان کی بندگی کرتے ہیں کہ شاہد ان کی طرف سے ان کو مدد پہنچے، کہ اللہ کے عذاب سے ان کے اعتقاد کے مطابق ان (بتوں) کی سفارش سے (عذاب سے) محفوظ رہ سکیں (مگر) ان کے معبود ان کی ہرگز مدد نہیں کرسکتے ان معبودوں کو ذوی العقول کے درجہ میں اتار لیا گیا ہے وہ یعنی ان کے ضمی معبود جن سے مدد کی توقع رکھنے کی وجہ سے ان کے لشکر میں ان (عابدین) کے ساتھ جہنم میں حاضر کئے جائیں گے، تو آپ کے بارے میں ان کا قول لَسْتَ وغیرہ آپ کو رنجیدہ نہ کرے بیشک ہم اس بات کو اور اس کے علاوہ کو خوب جانتے ہیں جن باتوں کو یہ چھپاتے ہیں اور جن کو ظاہر کرتے ہیں، ہم ان کو اس کا بدلہ دیں گے کیا انسان کو یہ معلوم نہیں اور وہ عاص بن وائل ہے کہ ہم نے اس کو نطفۂ منی سے پیدا کیا حتی کہ ہم نے اس کو قوی اور مضبوط کردیا پھر اس نے بعث کا انکار کرکے خصومت کو ظاہر کردیا اعلانیہ اعتراض کرنے لگا یعنی ہم سے سخت مخاصمت کرنے لگا، اور اس نے اس بارے میں ہماری شان میں ایک عجیب بات کہی اور اپنی اصل (حقیقت) کو بھول گیا کہ وہ نطفہ منی سے پیدا شدہ ہے اور وہ اس کی بیان کردہ عجیب بات سے زیادہ عجیب ہے کہتا ہے ہڈیوں کو جبکہ وہ بوسیدہ ہوگئی ہوں کون زندہ کرسکتا ہے ؟ رمیم بمعنی بالیۃٌ (بوسیدہ) رَمیمۃ ۃ کے ساتھ نہیں کہا ( جیسا کہ قیاس کا تقاضا تھا) اس لئے کہ رمیم اسم ہے نہ کہ صفت، روایت کیا گیا کہ عاص بن وائل نے ایک بوسیدہ ہڈی لی، اور اس کو ریزہ ریزہ کردیا، اور آپ ﷺ سے کہا کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس ہڈی کو بعد اس کے کہ وہ کہنہ اور بوسیدہ ہوگئی زندہ کرسکتا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے جواباً ارشاد فرمایا : ہاں کیوں نہیں، اور تجھ کو دوزخ میں داخل کرے گا آپ جواب دیجئے کہ ان کو وہ ذات زندہ کرے گی جس نے ان کو اول بار پیدا کیا اور وہ اپنی تمام مخلوق کے بارے میں پیدا کرنے سے پہلے اور پیدا کرنے کے بعد مجملاً ومفصلاً جانتا ہے، اور وہ ایسی ذات ہے کہ جس نے تمہارے لئے منجملہ دیگر لوگوں کے مرخ اور عفار یا ہر سبز درخت سے سوائے عناب کے آگ پیدا کی پھر تم اس سے آگ سلگالیتے ہو، اور یہ بعث (بعدالموت) پر قادر ہونے کی دلیل ہے، اس لئے کہ اس نے اس میں پانی اور آگ اور لکڑی (متضاد چیزیں) جمع کردیں، پانی آگ کو نہیں بجھاتا اور نہ آگ لکڑی کو جلاتی ہے، جس نے آسمان اور زمین جیسی چیزیں پیدا فرمائیں کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ ان جیسے صغیر انسانوں کو پیدا کرسکے ؟ ضرور پیدا کرسکتا ہے یعنی وہ اس بات پر قادر ہے خود ہی جواب دیدیا وہ بڑا پیدا کرنے والا ہے اور ہر شئ کا جاننے والا ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کی تخلیق کا ارادہ کرلیتا ہے تو اس سے کہہ دیتا ہے کہ ہوجا پس وہ ہوجاتی ہے اور ایک قراءت یکون نصب کے ساتھ ہے، یقولَ پر عطف کی وجہ سے وہ پاک ذات ہے اس کے دست قدرت میں ہر چیز کا اختیار ہے (ملکوت) میں واؤ اور تا زیادہ کئے گئے ہیں اور تم سب کو آخرت میں اسی طرف لوٹ کرجانا ہے۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : نُعَمِّرْہُ ای نُطِیْلُ اَجَلَہٗ ہم اس کی عمر دراز کردیتے ہیں۔ جمع متکلم مضارع مجزوم۔ قولہ : نُنَکِّسْہُ ای نُقَلِّبْہُ ای نَجْعَلْہُ علیٰ عَکسِ مَا خَلَقْنَاہُ ہم اس کی تخلیق پلٹ دیتے ہیں (اعراب القرآن) یعنی ہم بتدریج اس کی حالت بدل دیتے ہیں حتی کہ ضعف میں اس کی بچوں جیسی حالت ہوجاتی ہے۔ قولہ : وَمَنْ نُعَمِّرْہُ (الآیۃ) یہ جملہ مستانفہ ہے، قوت سے ضعف کی طرف انسان کی حالت کے بدلنے کی کیفیت کو بیان کرنے کے لئے لایا گیا ہے مَنْ اسم شرط اور نُعَمِّرْ فعل شرط ہے نُنَکِّسْہُ جواب شرط ہے۔ قولہ : اَفَلاَ یَعْقِلُوْنَ فا عاطفہ ہے، تقدیر عبارت یہ ہے اَتَرَکُوا التَّکُّرَفَلاَ یَعْقِلُوْنَ ۔ قولہ : وَمَا عَلَّمْنَاہُ الشِّعْرَ یہ آپ یہ آپ ﷺ پر کفار کی جانب سے شاعر ہونے کے الزام کا جواب ہے، اس کا عطف سورت کی ابتداء میں اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ جملہ قسمیہ پر ہے۔ قولہ : الشِّعْرَ معروف ہے (ج) اشعاد، شعر لغت میں علم دقیق اور احساس لطیف کو اور موزون و مقفی کلام کو کہتے ہیں، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ شعر یا تو منطقی ہوتا ہے اور یا وہ جو مقدمات کا ذبہ پر مشتمل ہو، اسی لئے ان ادلہ کو جو مقدمات کا ذبہ سے مرتب ہوں، ادلہ شعریہ کہتے ہیں، اور اصطلاح میں کلام مقفٰی و موزون علی القصد کو کہتے ہیں، آخری قید سے وہ شعر خارج ہے جو کہ بلا قصد اتفاقی طور پر جاری ہوگیا ہو، جیسا کہ آیات شریفہ اور بعض کلمات نبویہ اس لئے کہ ان میں بلاقصد اتفاقی طور پر علم عروض کے مطابق وزن ہوگیا ہے۔ (حاشیہ جلالین ملخصًا) قولہ : اَوَلَمْ بَرَالإنسانُ (الآیۃ) ہمزہ استفہام انکاری تعجبی ہے، محذوف پر داخل ہے، واؤ عاطفہ ہے تقدیر عبارت یہ ہے اَلَمْ یَتَفَکَّرُوْا رویت سے مراد رویت علمیہ ہے اَنا خلَقْنَاہُ مِن نطفۃٍ قائم مقام دو مفعولوں کے ہے۔ قولہ : خَصِیْمٌ، المخاصمُ المُجادل۔ قولہ : خَلَقْنَا لھُمْ لام حکمت کے لئے ہے، ای حِکْمَۃُ خَلْقِنَا ذٰلِکَ اِنتِفَاعُھُمْ ۔ قولہ : فی جملۃ الناسِ اس سے اشارہ کردیا کہ یہ نعمتیں ان ہی کے لئے مخصوص نہیں ہیں بلکہ سب کے لئے ہیں۔ قولہ : مَافِعَلُوْا ذء لک اس سے اشارہ کردیا کہ اَفَلَا یَشْکُرُوْنَ میں ہمزۂ استفہام انکاری ہے۔ قولہ : نُزِّلُوا مَنْزِلَۃََ العُقَلاَءِ یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ لا یَسْتَطِیْعُوْنَ سے مشرکین کے ضمی معبود مراد ہیں جو کہ غیر ذوی العقول ہیں اس کی جمع واؤ، نون کے ساتھ لانا درست نہیں ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ عابدین اور معبودین میں مشاکلت کے طور پر ذوی العقول کے ردجہ میں اتار کر واؤ نون کے ساتھ جمع لائی گئی ہے۔ قولہ : وَھُمُ لَھُمْ جُنْدٌ مُّحْضَرُوْنَ ، ھم، مبتداء جندٌ خبر اول، مُحْضَرُوْنَ خبر ثانی اور لَھُمْ جند کے متعلق ہے، مُحْضَرُوْنَ جندٌ کی صفت بھی ہوسکتی ہے۔ قولہ : اَیْ اٰلِھَتُھُمْ مِن الاصْنَامِ اس عبارت کے اضافہ سے شارح کا مقصد ھُمْ ضمیر کا مرجع متعین کرنا ہے، یعنی وہ بت ان کے لئے لشکر کے مانند ہیں مُحْضَرُوْنَ ای مُعَدُّوْنَ لحَفظِھم یعنی اپنی حفاظت کے لئے تیار کردہ لشکر ہے جو دنیا میں (ان کے خیال میں) ان کی حفاظت کرے گا (روح المعانی) دوسرا قول یہ بھی ہے کہ ھُمْ کا مرجع کفار ہیں یعنی کفار عابدین ان کے لئے حاضر باش لشکر کے مانند ہیں کہ ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ (جمل) قولہ : مِنْ ذٰلکَ ای قو لُھُمْ لَسْتَ مُرْسَلاً ۔ قولہ : الَّذِی جَعَلَ لَکُمْ یہ الَّذِی أنشأھَا سے بدل ہے۔ قولہ : اِلاَّ العُنَّابُ عناب کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کے رگڑنے سے آگ نہیں نکلتی، اور یہی وجہ ہے کہ قصارین (دھوبی) عناب کی لکڑی کا مطارق (موسلہ) بناتے ہیں تاکہ رگڑنے سے کپڑے میں آگ نہ لگ جائے۔ (صاوی) تفسیر و تشریح وَمَنْ نُعَمِّرْہُ (الآیۃ) نُعَمِّر تعمیر سے بتدریج عمر دراز کرنا، اور نُنَکِّسْہُ تَنْکِیْسٌ سے پلٹنا، اوندھا کرنا، بتدریج سابقہ حالت کی طرف لوٹانا، سفیان سے منقول ہے کہ تنکیس اسّی سال کی عمر میں ہوتی ہے، وَالحق اَنَّ زمانُ ابتداء الضعف والانتقاص مختلف لا ختلاف الأ مزجۃِ والعوارض (روح المعانی) یعنی تحقیقی بات یہ ہے کہ تنکیس کی کوئی مدت متعین نہیں ہے یہ امزجہ اور عوارض کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔ وما۔۔ الشعر مشرکین مکہ نبی کریم ﷺ کی تکذیب کے لئے مختلف قسم کی باتیں کہتے رہتے تھے، ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ آپ شاعر ہیں، اور یہ قرآن آپ کی شاعرانہ تک بندی ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی نفی فرمائی ہے یعنی نہ آپ شاعر ہیں اور نہ قرآن شعری کلام کا مجموعہ ہے بلکہ یہ تو صرف نصیحت وموعظت ہے، شاعری میں بالعموم مبالغہ، افراط وتفریط اور محض تخیلات کی ندرت کاری ہوتی ہے، یوں گویا کہ اس کی بنیاد جھوٹ پر ہوتی ہے، کہا گیا ہے اَعْذَبُہٗ اَکْذَبُہٗ یعنی شعر میں جتنا زیادہ مبالغہ اور جھوٹ ہوگا اتنا ہی وہ مزیدار ہوگا علاوہ ازیں شاعر محض گفتار کے غازی ہوتے ہیں کردار کے نہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے نہ صرف یہ کہ اپنے پیغمبر کو شعر نہیں سکھلائے، بلکہ اس کے مزاج و طبیعت کو ایسا بنایا کہ شعر سے اس کو کوئی مناسبت ہی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کبھی کسی کا شعر پڑھتے تو اکثر صحیح نہ پڑھ پاتے، اور اس کا وزن ٹوٹ جاتا جس کی مثالیں احادیث میں موجود ہیں، یہ احتیاط اس لئے کی گئی کہ منکریں پر اتمام حجت اور ان کے شبہات کا خاتمہ کردیا جائے اور یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ قرآن اس کی شاعرانہ تک بندی کا نتیجہ ہے، جس طرح آپ کی امت بھی قطع شبہات کے لئے تھی، تاکہ لوگ قرآن کی بابت یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ تو فلاں سے سیکھ کر یا کتب سابقہ کا مطالعہ کرکے مرتب کرلیا ہے، البتہ بعض مواقع پر آپ کی زبان مبارک سے ایسے الفاظ کا نکل جانا جو دو مصرعوں کی طرح ہوتے اور شعری اور ان وبحور کے بھی مطابق ہوتے، آپ کے شاعر ہونے کی دلیل نہیں بن سکتے، کیونکہ ایسا آپ کے قصدوارادہ کے بغیر ہوا، اور ان کا شعری قالب میں ڈھل جانا ایک اتفاق تھا، جس طرح غزوۂ حنین کے موقع پر آپ سفید خچر پر سوار تھے اور ابوسفیان بن الحارث لگام پکڑے ہوئے تھے، اس موقع پر چند افراد کے علاوہ کوئی آپ کے ساتھ نہیں رہا تھا تو آپ کی زبان پر بےاختیاریہ رجز جاری ہوگیا : ؎ اَنا النبیُّ لا کَذِبْ اَنَا ابن عبد المطلب اسی طرح ایک موقع پر آپ کی انگشت مبارک پتھر سے زخمی ہوگئی تو آپ نے فرمایا : ؎ ھَلْ انتِ اِلاَّ اِصْبَعٌ دمیتِ وفی سبیل اللہِ ما لقیت (صحیح بخاری، مسلم کتاب الجھاد، روح المعانی) اس کے علاوہ ایک دو شعر کہنے یا پڑھنے سے شاعر نہیں ہوجاتا اور نہ اس کو شاعر کہا جاتا ہے، عرف شاعر اسی کو کہا جاتا ہے جو شعر گوئی پر قدرت اور مشغلہ رکھتا ہو، جس طرح کبھی کبھار کپڑا سینے والا خیاط نہیں کہا جاتا بلکہ درزی وہی ہوتا ہے جو خیاطی کا پیشہ کرتا ہو ورنہ تو ہر شخص خیاط کہلائے گا۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ نے یہ شعر پڑھا : ؎ سَتبدی لک الاَیَّامُ ما کنت جاھِلاً ویاتیک مَنْ لم تزوَّد بالا خبار حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کیا، لیس ھٰکذا یا رسول اللہ فقال رسول اللہ ﷺ اِنِّی واللہ مَا اَنابشاعرٍ ولا ینبغی لی۔ اولم۔۔۔ لھم (الآیۃ) اس آیت میں چوپایوں، جانوروں کی تخلیق میں انسانی منافع اور ان میں قدرت کی عجیت و غریب صنعتکاری کا ذکر فرمانے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ایک اور احسان عظیم کو بتلایا گیا ہے، یہ چوہائے کہ جن کی تخلیق میں کسی انسان وغیرہ کا کوئی دخل نہیں ہے، خالص دست قدرت کے بنائے ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کیا کہ ان سے انسانوں کو نفع اٹھانے کا موقع دیا بلکہ ان کا ان کو مالک بھی بنادیا، کہ وہ ان میں جس طرح چاہیں مالکانہ تصرف کرسکتے ہیں، اگر ہم ان میں وحشی پن رکھ دیتے (جیسا کہ بعض جانوروں میں ہے) تو یہ چوپائے ان سے دور بھاگتے اور وہ ان کی ملکیت اور قبضے ہی میں نہ آسکتے، یہ خدا کے کرم و احسان ہی کا نتیجہ ہے کہ ان جانوروں سے جس طرح کا بھی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں وہ انکار نہیں کرتے ہیں، مثلاً ان کی اون اور بالوں سے مختلف کی عمدہ اور آرام دہ چیزیں بنتی ہیں، اور باربرداری اور کھیتی باڑی کے بھی کام آتے ہیں، حتی کہ بوقت ضرورت ان کو ذبح کرکے کھاتے بھی ہیں۔ ملکیت کے بارے میں سرمایہ داری اور اشتراکیت کا نظریہ : گذشتہ صدی کے اوئل سے معاشی نظریات میں یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ تخلیق اشیاء اور ان کی ملکیت میں سرمایہ اور دولت اصل ہے یا محنت، سرمایا دارانہ نظام معیشت کے قائل دولت اور سرمایہ کو اصل قراردیتے ہیں، اور سوشلزم اور کمیونزم (اشتراکیت) والے محنت کو اصل علت تخلیق و ملکیت قرار دیتے ہیں۔ قران کریم کا نظریۂ معیشت : قرآن کریم کی مذکورہ صراحت نے بتلا دیا ہے کہ تخلیق اشیاء اور ان کی ملکیت میں دونوں (یعنی سرمایہ اور محنت) کا کوئی دخل نہیں، کسی چیز کی تخلیق انسان کے قبضے میں نہیں، تخلیق براہ راست اللہ تعالیٰ کا فعل ہے، اور عقل کا تقاضہ ہے کہ جو جس کو پیدا کرے وہی اس کا مالک ہو، اس سے ثابت ہوا کہ اشیاء عالم میں حقیقی ملکیت حق تعالیٰ کی ہے، انسان کی ملکیت صرف اللہ تعالیٰ کے عطا کرنے سے ہوسکتی ہے۔ (معارف) واتخذوا۔۔۔ الھۃً (الآیۃ) یہ ان کے کفران نعمت کا اظہار ہے کہ مذکورہ نعمتیں جن سے فائدہ اٹھاتے ہیں، سب اللہ کی پیدا کردہ اور عطا کردہ ہیں، لیکن یہ بجائے اس کے کہ اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکرادا کریں یعنی اس کی عبادت و اطاعت کریں، غیروں سے امید وابستہ کرتے ہیں اور انہیں معبود بناتے ہیں۔ لا۔۔۔ جندٌ (الآیۃ) جندٌ سے مراد بتوں کے حمایتی اور ان کی طرف سے مدافعت کرنے والے اور مُحْضَرونَ سے مراد حاضر باش دنیا میں ان کے پاس رہنے والے ہیں، مطلب یہ ہے کہ یہ جب بتوں کو معبود سمجھتے ہیں، وہ ان کی مدد کیا کریں گے ؟ یہ مشرکین خود اپنے معبودوں کی مدد اور حفاظت کرتے ہیں، ان کے معبودوں کو اگر کوئی برا کہے ان کی مذمت کرے، تو خود یہی لوگ ان کی حمایت و مدافعت میں سرگرم ہوجاتے ہیں، نہ کہ وہ معبود۔ بعض حضرات نے جُنْدٌ سے مراد فریق مخالف لیا ہے، آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ جن چیزوں کو انہوں نے دنیا میں معبود بنا رکھا ہے یہی قیامت کے روز ان کے مخالف ہو کر ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ اور حضرت حسن و قتادہ سے اس کی یہ تفسیر منقول ہے کہ ان لوگوں نے بتوں کو معبود تو اس لئے بنایا تھا کہ یہ ان کی مدد کریں گے اور ہو یہ رہا ہے کہ وہ تو ان کی مدد کرنے کے قابل نہیں خود یہی لوگ جو ان کی عبادت کرتے ہیں ان کے خدام اور سپاہی بنے ہیں۔ اولم۔۔ نسان (الآیۃ) کیا یہ انسان اتنا نہیں سمجھتا کہ جس اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک حقیر نطفہ سے پیدا کیا ہو وہ دوبارہ اس کو زندہ کرنے پر کیوں قادر نہیں ؟ اس کی قدرت احیاء موتےٰ کا ایک واقعہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے مرتے وقت وصیت کی کہ مرنے کے بعد اسے جلا کر اس کی آدھی راکھ سمندر میں اور ادھی راکھ تیز ہوا میں اڑادی جائے، چناچہ اس کے ورثاء نے اس کی وصیت کے مطابق عمل کیا، اللہ تعالیٰ نے اس کی تمام راکھ جمع کرکے اسے زندہ فرمایا اور اس سے پوچھا تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اس نے کہا تیرے خوف سے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرمادیا۔ (صحیح بخاری، الانبیاء) الذی۔۔۔ نارًا (الآیۃ) کہتے ہیں کہ عرب میں دو درخت ہیں مرخ اور غفار، اگر انکی دو لکڑیاں آپس میں رگڑی جائیں تو آگ پیدا ہوتی ہے، سبز درخت سے آگ پیدا کرنے سے اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ اس کے لئے کوئی چیز ناممکن نہیں ہے وہ ہر شئ پر قادر ہے، مردوں کو زندہ کرنا اس کے لئے اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ ابتداءً پیدا کرنا۔ ٭تم بحمداللہ٭
Top