Tafseer-e-Jalalain - Az-Zumar : 63
فَذَرْنِیْ وَ مَنْ یُّكَذِّبُ بِهٰذَا الْحَدِیْثِ١ؕ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَۙ
فَذَرْنِيْ : پس چھوڑدو مجھ کو وَمَنْ يُّكَذِّبُ : اور جو کوئی جھٹلاتا ہے بِهٰذَا : اس الْحَدِيْثِ : بات کو سَنَسْتَدْرِجُهُمْ : عنقریب ہم آہستہ آہستہ کھینچیں گے ان کو مِّنْ حَيْثُ : جہاں سے لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے نہ ہوں گے
تو مجھ کو اس کلام کے جھٹلانے والوں کو سمجھ لینے دو ہم ان کو آہستہ آہستہ ایسے طریق سے پکڑیں گے کہ ان کو خبر بھی نہ ہوگی .
فذرنی ومن یکذب بھذا الحدیث مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ ان سے نمٹنے کی فکر میں نہ پڑیں، ان سے نمٹنا میرا کام ہے یعنی آپ ﷺ قیامت کو جھٹلانے والوں کو اور مجھے چھوڑ دیں، پھر دیکھیں کہ ہم کیا کرتے ہیں، یہاں چھوڑ دینا ایک محاورہ کے طور پر استعمال ہوا ہے، مراد اس سے اللہ پر بھروسہ اور توکل کرنا ہے، یعنی کفار کی جانب سے جو یہ مطالبہ بار بار پیش ہوتا رہتا ہے کہ ہم اگر واقعی اللہ کے نزدیک مجرم ہیں اور اللہ ہمیں عذاب دینے پر قادر ہے تو پھر ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا ؟ ایسے دل آزار مطالبوں کی وجہ سے کبھی کبھی خود رسول اللہ ﷺ کے قلب مبارک میں بھی یہ خیال پیدا ہوتا ہوگا کہ ان لوگوں پر اسی وقت عذاب آجائے تو باقی ماندہ لوگوں کی اصلاح کی توقع ہے، اس پر فرمایا گیا کہ اپنی حکمت کو ہم خوب جانتے ہیں، ایک مدت تک ان کو مہلت دیتے ہیں فوراً عذاب نہیں بھیجتے، اس میں ان کی آزمائش بھی ہے اور ایمان لانے کی مہلت بھی۔
Top