Al-Qurtubi - Al-Qalam : 44
فَذَرْنِیْ وَ مَنْ یُّكَذِّبُ بِهٰذَا الْحَدِیْثِ١ؕ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَۙ
فَذَرْنِيْ : پس چھوڑدو مجھ کو وَمَنْ يُّكَذِّبُ : اور جو کوئی جھٹلاتا ہے بِهٰذَا : اس الْحَدِيْثِ : بات کو سَنَسْتَدْرِجُهُمْ : عنقریب ہم آہستہ آہستہ کھینچیں گے ان کو مِّنْ حَيْثُ : جہاں سے لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے نہ ہوں گے
تو مجھ کو اس کلام کے جھٹلانے والوں کو سمجھ لینے دو ہم ان کو آہستہ آہستہ ایسے طریق سے پکڑیں گے کہ ان کو خبر بھی نہ ہوگی .
فذرنی مجھے چھوڑ دیجیے و من یکذب من مفعول معہ ہے یا ضمیر متکلم پر معطوف ہے بھذا الحدیث مراد قرآن حکیم ہے، یہ سدی کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد یوم قیامت ہے۔ یہ نبی کریم ﷺ کو تسلی دینا مقصود ہے یعنی میں انہیں اجازت دیتا ہوں اور ان سے اتنقام لیتا ہوں۔ پھر فرمایا، سنستدرجھم من حیث لایعلمون۔ اس کا معنی ہے ہم اس کی غفلت میں اسے پکڑ لیں گے جبکہ وہ پچانتے تک نہ ہوں گے پس انہیں بدر کے دن عذاب میں مبتلا کیا گیا (4) حضرت سفیان ثوری نے کہا، ہم ان پر نعمتیں بہائیں گے اور شکر کرنا انہیں بھلا دیں گے۔ حضرت حسن بصری نے کہا : کتنے ہی لوگ ہیں جن پر احسان کرنے کے ساتھ ان کے ساتھ استدراج کیا جاتا ہے (5) کتنے ہی لوگ ہیں جن کی تعریف کر کے انہیں آزمائش میں ڈالا جاتا ہے کتنے ہی افراد ہیں جن کے عیبوں پر پردہ ڈالا جاتا ہے تو وہ دھوکے میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ ابو روق نے کہا، جب بھی وہ غلطی کرتے ہیں ہم ان پر ایک نیء نعمت کرتے ہیں اور استغفار ان سے بھلا دیتے ہیں۔ حضرت ابن عباس نے کہا، ہم ان کے ساتھ مکر کریں گے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ہم ان کو تھوڑا پکڑ کریں گے اور اچانک ان کو اپنی گرفت میں نہیں لیں گے۔ ایک حدیث میں ہے :” بنی اسرائیل کے ایک آدمی نے عرض کی : اے میرے رب ! میں نے تیری کتنی ہی نافرمانیاں کیں تو نے مجھے سزا نہ دی ؟ اللہ تعالیٰ نے ان کے زمانہ کے نبی کی طرف وحی کی اس آدمی سے کہو : میری کتنی ہی تیرے لئے سزائیں ہیں جن کا تو شعور تک نہیں رکھتا، بیشک تیری آنکھوں کا (خوف الٰہی میں رونے سے) خشک ہوجانا اور تیرے دل کی سختی میری جانب سے استدراج ہے اور سزا ہے اگر تو سمجھے۔ ‘ استدراج کا معنی جلدی کو ترک کرنا ہے، اس کا اصل معنی ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونا ہے جس طرح تدرج ہوتا ہے اسی سے درجۃ ہے یہ ایک منزل کے بعد دوسری منزل ہے۔ استدراج فلاں فلانا فلاں نے فلاں سے چیز آہستہ ناکلی۔ یہ جملہ کہا جاتا ہے : درجہ الی کذا، استدرجہ دونوں کا معنی ایک ہے۔ اس نے تدریجا اسے اپنے قریب کیا تو وہ قریب ہوگیا۔ واملی لھم میں انہیں ملت دوں گا اور مدت کو ان کے لئے لمبا کر دوں گا۔ ملاوۃ زمانے کی ایک مدت کو کہتے ہیں۔ املی اللہ لہ اس کو لمبا کردیا۔ فلوان سے مراد رات اور دن ہے۔ ایک قول یہ کیا یا ہے : واملی لھم میں جلدی انہیں موت نہیں دوں گا۔ معنی ایک ہی ہے۔ سورة الاعراف میں اس کی وضاحت گزر چکی ہے۔ ان کیدی متین۔ میرا عذاب قوی اور شدید ہے کوئی مجھ پر غالب نہیں آسکتا۔
Top