Tafseer-e-Jalalain - Al-Anfaal : 49
اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ غَرَّ هٰۤؤُلَآءِ دِیْنُهُمْ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
اِذْ : جب يَقُوْلُ : کہنے لگے الْمُنٰفِقُوْنَ : منافق (جمع) وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو کہ فِيْ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں میں مَّرَضٌ : مرض غَرَّ : مغرور کردیا ھٰٓؤُلَآءِ : انہیں دِيْنُهُمْ : ان کا دین وَمَنْ : اور جو يَّتَوَكَّلْ : بھروسہ کرے عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اس وقت منافق اور (کافر) جن کے دلوں میں مرض تھا کہتے تھے کہ ان لوگوں کو ان کے دین نے مغرور کر رکھا ہے اور جو شخص خدا پر بھروسہ رکھتا ہے تو خدا غالب حکمت والا ہے۔
آیت نمبر 49 تا 58 ترجمہ : اور جبکہ منافقین اور وہ لوگ کہ جن کے قلوب میں ضعفِ اعتقاد کا روگ لگا ہوا تھا کہہ رہے تھے کہ ان مسلمانوں کو تو ان کے دین نے خبط میں مبتلا کر رکھا ہے اس لئے کہ اپنی قلب تعداد کے باوجود ایک بڑی جماعت کے ساتھ لڑنے کے لئے اس خام خیالی کی وجہ سے کہ دین سے ان کی مدد کی جائے گی نکل پڑے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا حالانکہ اگر کوئی اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ غالب ہوگا یقینا اللہ تعالیٰ اپنے امر پر غالب اور اپنی صنعت میں باحکمت ہے کاش اے محمد تم اس حالت کو دیکھ سکتے جبکہ فرشتے کافروں کی روح قبض کرتے ہیں (یتوفیٰ ) یاء اور تاء کے ساتھ ہے، ان کے منہ پر اور ان کے کو لہوں پر لوہے کے ہتھوڑوں سے مارتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں آگ میں جلنے کا مزہ چکھو، اور لَوْ کا جواب، لَرأیْتَ اَمْراً عظیما، محذوف ہے، یہ تمہارے ان اعمال کے سبب سے ہے جن کو تم پیشگی مہیا کرچکے ہو ہاتھوں سے نہ کہ دیگر اعضاء سے تعبیر اس لئے کیا ہے کہ اکثر اعمال میں ہاتھوں سے شرکت ہوتی ہے، ورنہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے کہ ان کو بغیر کسی قصور کے سزا دے یہ معاملہ ان کے ساتھ اسی طرح پیش آیا جس طرح فرعون کے اور ان سے پہلے لوگوں کے ساتھ پیش آیا کہ انہوں نے اللہ کی آیتوں کو ماننے سے انکار کیا تو اللہ نے ان کو ان کے گناہوں کی سزا میں پکڑ لیا جملہ، کَفَرُوا، اور اس کا مابعد اس کے ماقبل کے لئے مفسِرّہ ہے، بیشک اللہ تعالیٰ اپنے منشاء کے بارے میں قوی ہے اور سخت عذاب والا ہے یہ کافروں کو عذاب دینا اس وجہ سے ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ دستور نہیں کہ کسی قوم ہر نعمتوں کا انعام فرمانے کے بعد اس کو نقمت (زحمت) سے بدل دے جب تک وہ قوم اپنے طرز عمل کو خود ہی نہ بدل دے، (یعنی) اپنے اوپر نعمتوں کے مقتضی (شکر) کو ناشکری سے بدل دیں، جیسا کہ کفار نے بدل دیا، (تو اللہ نے) ان کی شکم سیری کو فاقہ سے اور ان کے امن کو خوف سے اور نبی ﷺ کی بعثت کو (جو کہ اعظم نعمت ہے) انکار سے اور راہ خدا سے روکنے سے اور مومینن کے ساتھ قتال کرنے سے (بدل دیا) اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے والا (اور) جاننے والا ہے آل فرعون اور ان سے پہلوں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا وہ اسی ضابطہ کے مطابق پیش آیا، کہ انہوں نے اپنے رب کی آیتوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کو ان کے گناہوں کی پاداش میں ہلاک کردیا، اور قوم فرعون کو مع فرعون کے غرق کردیا بیشک یہ تکذیب کرنے والی تمام قومیں ظالم تھیں، اور آئندہ آیت بنی قریظہ کے بارے میں نازل ہوئی، یقینا اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والی مخلوق میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے کفر کیا پھر وہ ایمان نہیں لائے ( خصوصاً ) ان میں سے وہ لوگ جن سے آپ نے معاہدہ کیا یہ کہ وہ مشرکین کی مدد نہ کریں گے پھر وہ باربار اپنے عہد کو توڑتے ہیں جو انہوں نے آپ سے کیا اور وہ عہد توڑنے میں خوف خدا نہیں رکھتے پھر اگر تم ان پر میدان جنگ میں قابو پاجاؤ تو ان کی عذاب اور سزا کے ذریعہ ایسی خبر لو کہ وہ لوگ جو ان کے پیچھے ہیں ان سے عبرت حاصل کرلیں اور اگر (اے محمد) تمہیں کسی قوم سے کس نے تم سے معاہدہ کیا ہے توڑ دیجئے (علی سوائ) یہ نابذ اور منبوذ، دونوں سے حال ہے حال یہ کہ نقض عہد میں جانکاری کے اعتبار سے دونوں برابر ہوں (یعنی نقض عہد کا دونوں کو علم ہو) بایں صورت کہ آپ ان کو فسخِ عہد کی اطلاع کردیں تاکہ وہ آپ کو بدعہدی کے ساتھ متہم نہ کریں، اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : یَغْلِبُ ، اس میں اشارہ ہے کہ (مَن یتوکل) کی جزاء محذوف ہے اور وہ یغلب ہے، اس حذف پر بعد والا جملہ فاِنَّ اللہ عزیز حکیم، دلالت کررہا ہے۔ قولہ : وَلَوْ تَریٰ یا محمد ﷺ . سوال : تَرَیٰ ، مضارع کا صیغہ ہے جو حال و استقبال پر دلالت کرتا ہے اور اِذ یتوفی، ماضی پر دلالت کرتا ہے اسلئے کہ اِذ مضارع کو ماضی کے معنی میں کردیتا ہے لہٰذا دونوں جملوں میں منافات ہے۔ جواب : لَوْ مضارع کو ماضی کے معنی میں کردیتا ہے لہٰذا دونوں جملوں میں کوئی منافات نہیں ہے۔ قولہ : حال، یعنی یضربون، ملائکة سے، بالذین کفروا سے حال ہے نہ کہ صفت۔ قولہ : مقامِعَ ، مِقْمَعَة، کی جمع ہے ہتھوڑا، گرز، بروزن مِکنَسَة . قولہ : یقولون لھم اس میں ایک سوال مقدر کے جواب کی طرف اشارہ ہے۔ سوال : ذوقوا کا عطف یَضْربةوْنَ پر ہے، اور یہ عطف انشاء علی الخبر ہے جو کہ مستحسن نہیں ہے دوسرا اعتراض یہ کہ ایک ہی جملہ میں غائب اور حاضر کا اجتماع ہورہا یہ بھی مستحسن نہیں ہے۔ جواب : ذوقوا سے پہلے یقولون محذوف ہے جیسا کہ مفسرّعلاّم نے صراحت کردی ہے، لہٰذا دونوں اعتراض دفع ہوگئے، لَوْ کے جواب کو ہولناکی کی عظمت وہیبت کو ثابت کرنے کے لئے حذف کردیا ہے، جس کو مفسرّ علاّم نے لَرَأیْتَ امرًا عظیماً کہہ کر ظاہر کردیا ہے۔ قولہ : ڈأبُ ھٰؤلاء اس میں اشارہ ہے کہ کدأب آل فرعون، مبتداء محذوف کی خبر ہونے کی وجہ سے محل میں رفع کے ہے، لہٰذا کلام کے نا تمام ہونیکا اعتراض ختم ہوگیا، اور یہ اعتراض بھی ختم ہوا کہ یہاں شبہ کے بغیر تشبیہ لازم آرہی ہے۔ قولہ : جُمْلَة کَفَرُوا مُفَسِّرة لِمَا قَبْلھَا، یہ بھی ایک سوال مقدر کا جواب ہے سوال یہ ہے کہ مسلسل جملے کے درمیان والذین کفروا من قبلھم، کو کس مقصد کے لئے فاضل لایا گیا، جواب یہ ہے کہ یہ ماقبل کے جملہ کی تفسیرہی ہے لہذا یہ فضل بالا جنبی نہیں جو اعتراض واقع ہو۔ قولہ : بالنِقْمَة یہ انتقام سے اسم ہے۔ قولہ : اَطْعَامِھِمْ اس میں اشارہ ہے کہ مابا نفسھم سے مراد انعامات مثلاً کھانا وغیرہ ہیں نہ کہ حالات لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ قریش اور آل فرعون کے لئے مرضیہ تھے ہی نہیں کہ ان کو حالات نا مرضیہ سے بدل دیا گیا۔ (ترویح الارواح) قولہ : تَجِدَنَّھُمْ ، ای تظفر نَّھُمْ و تغلِبنَّھُمْ. قولہ : بالتَنْکِیْلَ ، (تفعیل) عبرتناک سزا دینا۔ قولہ : اَنْتَ وَھُمْ ، اس میں اشارہ ہے کہ مستویَةً ، نابذ اور منبوذ (یعنی فاعل اور مفعول) دونوں سے حال ہے۔ تفسیر وتشریح اِذ یقولُ المنافقون والذین فی قلوبھم مرض الخ اس آیت میں منافقین مدینہ اور مشرکین نیز ان مسلمانوں کا جن کے دلوں میں ابھی اسلام راسخ نہیں ہوا تھا کا ایک مشترکہ مقولہ نقل کیا گیا ہے جو بظاہر مسلمانوں کی خیرخواہی اور ان پر ترس کھا کر کہا گیا ہے '' غَرَّ ھم ھٰؤلاء دِیْنُھُمْ '' ان بیچاروں کو دین کے جوش جنون نے دیوانہ کردیا ہے کہ مٹھی بھر مسلمان قریش کے بھاری اور مسلح لشکر سے ٹکرانے کے لئے نکل پڑے ہیں ان بیچاروں کو دین کے جوش جنون نے موت کے منہ دھکیل دیا ہے، اس معرکہ میں ان کی تباہی یقینی ہے شاید کہ اس نبی نے کچھ ایسا افسوں ان پر پھو نکدیا ہے کہ ان کی عقل خبط ہوگئی ہے۔ تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا قول ہے کہ جب مسلمانوں کی فوج کفار کی فوج سے قریب ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کافروں کی نظر میں اور کافروں کو مسلمانوں کی نظر میں کم کرکے دکھایا، تو مشرک کہنے لگے کہ یہ مسلمان اپنے دین پر مغرور ہو کر اپنی قلت تعداد کے باوجود لڑنے کے لئے نکل آئے ہیں، اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا، '' وَمَنْ یَتَوکل علی اللہ فَاِنَّ اللہ عزیز حکیم '' یعنی جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے یادرکھو وہ کبھی ذلیل نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ سب پر غالب ہے، '' ذلک بان اللہ لم یک مغیرًا نعمة انعمھا علی قوم '' الخ یعنی جب تک کوئی قوم اپنے آپ کو پوری طرح اللہ کی نعمتوں کا غیر مستحق نہ بنا لے اللہ اس سے اپنی نعمت سلب نہیں کیا کرتا، اس آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عام قانون یہ ہے کہ جب کسی قوم پر اللہ تعالیٰ اپنی نعمتیں مبذول کرتا ہے اور وہ قوم ان نعمتوں کی قدر نہ کرے اور ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بجائے سرکشی کرے تو اللہ تعالیٰ ایسے نا شکروں سے نعمت چھین لیتا ہے اور ان نعمتوں کو زحمتوں میں بدل دیتا ہے، قوم فرعون اور ان سے پہلی قوموں نے بھی جب اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو ان نعمتوں کو ان سے سلب کرکے ان کو مصیبتوں میں مبتلا کردیا گیا۔
Top