Tafseer-e-Jalalain - Al-Anfaal : 59
وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَبَقُوْا١ؕ اِنَّهُمْ لَا یُعْجِزُوْنَ
وَلَا يَحْسَبَنَّ : اور ہرگز خیال نہ کریں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) سَبَقُوْا : وہ بھاگ نکلے اِنَّهُمْ : بیشک وہ لَا يُعْجِزُوْنَ : وہ عاجز نہ کرسکیں گے
اور کافر یہ نہ خیال کریں کہ وہ بھاگ نکلے ہیں۔ وہ (اپنی چالوں سے ہم کو) ہرگز عاجز نہیں کرسکتے۔
آیت نمبر 59 تا 64 ترجمہ : آئندہ آیت ان (مشرکین) کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے یوم بدر میں راہ فرار اختیار کی تھی، اے محمد ﷺ تم ہرگز یہ نہ سمجھو کہ یہ کافر اللہ ( کی پکڑ) سے بچ کر نکل جائیں گے، یہ اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے اور نہ اس سے بچکر نکل سکتے ہیں، اور ایک قراءت میں ( لا یحسَبَنَّ ) یاء تحتانیہ کے ساتھ (یحسَبَنَّ ) کا مفعول اول محذوف ہے اور وہ اَنفُسَھُمْ ، ہے اور ایک قراءت میں اَنَّھم ہمزہ کے فتحہ اور لام کے ساتھ ہے ای لاِ نَّھُمْ ، اور ان سے جنگ کے لئے مقدور بھر قوت مہیا رکھو، آنحضرت ﷺ نے فرمایا وہ تیر اندازی ہے (رواہ مسلم) اور (تیار) بندھے رہنے والے گھوڑے، (رباط) مصدر ہے بمعنی اللہ کے راستہ میں محبوس رکھنا، (تاکہ) تم اس کے ذریعہ اللہ کے اور اپنے دشمن کفار مکہ کو خوف زدہ کرسکو، اور ان کے علاوہ دوسروں کو بھی یعنی ان کے غیر کو، اور وہ منافقین اور یہود ہیں، جن کو تم نہیں جانتے، اللہ ان کو جانتا ہے اور جو کچھ تم اللہ کے راستہ میں خرچ کروگے تم کو اس کا پورا پورا اجر دیا جا ئیگا اور تمہارے اوپر ظلم نہ کیا جائیگا، کہ اس اجر میں سے کچھ کم دیا جائے، اور (اے محمد ﷺ اگر دشمن صلح کی طرف مائل ہوجائے سِلم، سین کے کسرہ اور فتحہ کے ساتھ، بمعنی صلح، تو آپ بھی اس کے لئے آمادہ ہوجایئے، اور ان سے معاہدہ کرلیجئے، ابن عباس ؓ نے فرمایا یہ حکم آیت سیف سے منسوخ ہے، اور مجاہد نے کہا یہ آیت اہل کتاب کے ساتھ مخصوص ہے، اس لئے کہ یہ بنی قریظہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اور اللہ پر بھروسہ کرو یقینا وہ باتوں کا سننے والا (اور) کاموں کا جاننے والا ہے اور اگر وہ (صلح سے) دھوکے کا ارادہ رکھتے ہوں تاکہ آپ کے مقابلہ کی تیاری کرسکیں، تو یقینا تمہارے لئے اللہ کافی ہے، وہی تو ہے جس نے اپنی مدد اور مومنین کے ذریعہ آپ کی تائید کی اور عداوت کے بعد ان کے دلوں کو جوڑ دیا، اور اگر تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو بھی ان کے قلوب کو نہیں جوڑ سکتے تھے لیکن اللہ نے اپنی قدرت سے ان کے دلالوں کو جوڑ دیا بیشک وہ اپنے حکم پر غالب باحکمت ہے کوئی شئی اس کے حکم سے خارج نہیں اے نبی تمہارے لئے اور تمہاری اتباع کر نیوالے مومنین کیلئے اللہ کافی ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : اَفْلَتَ ، (افعال) رہا ہونا، چھوڑنا، راہ فرار اختیار کرنا، اِنفلاة البطن، پیٹ چلنا (اسہال) انفلات الریح، ہوا خارج ہونا، انفلت الشئی فلتَةً ، ای نغتةً ، اچانک نکلنا۔ قولہ : لاتحْسَبَنَّ ، یہ آپ ﷺ کو خطاب ہے متعدی بدومفعول ہے اول الذین کفروا ہے اور ثانی سَبَقوا جملہ ہو کر ہے، اللہ، سنقوا کا مفعول ہے، قرینہ مقام کی وجہ سے حذف کردیا گیا ہے جس کو مفسرّ علاّم نے ظاہر کردیا ہے، اور ایک قرأت میں تحسَبَنَّ ، یاء کے ساتھ ہے اس صورت میں یَحْسَبَنَّ کا مفعول اول محذوف ہوگا، ای لا یَحْسَنَنَّ الذین کفروا انفسھم سابقین اللہ، ایک قراءت میں اَنَّھم، ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ ہے اس صورت میں لام مقدر ہوگا ای لأِ نّھم . قولہ : مصدر، رِباط الخیل میں، رِباط مصدر بمعنی مفعول ہے ای الخیل المربوط، جہاد کے لئے تیار بندھے رہنے والے گھوڑے، رباط کا عطف مصدر علی المصدر ہے۔ قولہ : فَاجْنَحْ لَھَا . سوال : لَھَا کی ضمیر سِلْم کی طرف راجع ہے جو مذکر ہے، اور ضمیر مؤنث ہے ضمیر اور مرجع میں مطابقت نہیں ہے۔ جواب : سِلْم، کی نقیض یعنی حرب کا اعتبار کرتے ہوئے ضمیر کو مؤنث لایا گیا ہے حَرْب مؤنث سماعی ہے۔ قولہ : کَافِیَکَ ، یہ ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : سوال یہ ہے کہ حَسْبُکَ اللہ، میں مصدر کا حمل ذات پر لازم آرہا ہے جو کہ درست نہیں ہے۔ جواب : مصدر بمعنی اسم فاعل ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں، مفسرّ علاّم نے حَسبُک کی تفسیر کا فیک سے کر کت اشارہ کردیا کہ مصدر بمعنی اسم فاعل ہے۔ قولہ : الْاِ حْنُ الاِ حْنَةُ ، کی جمع ہے پر شیدہ دشمنی، کینہ، اَحِنَ اَحْنًا (س) پوشیدہ دشمنی رکھنا۔ تفسیر وتشریح وَلا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کفروا الخ، اس آیت میں اس واقعاتی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اہل کفر تو تمہارے اور تمہارے دین کے دشمن رہیں گے ہی، حق و باطل، کفر و ایمان کا معرکہ قیامت تک جاری رہنے والا ہے، لہذا تم اس سے مقابلہ کے لئے ہمیشہ تیار رہو، اس کی طرف سے ہرگز غفلت نہ برتو، اور اپنے پاس وہ سامان رکھو جس سے ان پر ہیبت طاری ہوتی رہے اور ان کے دل دہلتے رہیں۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے پاس ایک مستقل فوج ہمہ وقت تیار رہنی چاہیے تاکہ بوقت ضرورت فوراً جنگی کاروائی کرسکو، یہ نہ ہو کہ خطرہ سر پر آنے کے بعد گھبراہٹ میں جلدی جلدی رضا کار اور اسلحہ و سامانِ رسد جمع کرنے کی کوشش کرو اور اس دوران دشمن اپنا کام کر جائے۔ دشمن کے مقابلے کی تیاری : وَاَعِدّ والَھُمْ مَا اسْتَطعتم مِنْ قوةٍ الخ میں سامانِ حرب و ضرب سے اپنی مقدور بھر ہر وقت تیار رہنے کی کھلی تاکید بلکہ حکم ہے آیت میں، قوة، کا لفظ استعمال ہوا ہے یہ لفظ ہر قسم کی قوة کو عام ہے خواہ عَدَدِی قوت ہو یا آلات حرب کی، یہاں تک کہ بعض فقہاء نے لکھا ہے کہ بڑھے ہوئے ناخن بھی اس میں داخل ہیں (ماجدی) اگرچہ حدیث شریف میں قوة کی تفسیر تیر اندازی سے کی گئی ہے۔ (صیح مسلم کتاب الا مارہ باب فضل الرمی والحث علیہ) چونکہ آنحضرت ﷺ کے دور میں تیر اندازی ایک جنگی ہتھیار اور نہایت اہم فن تھا جس طرح اس دور میں گھوڑے جنگ کے لئے ناگزیر ضرورت تھے لیکن اس ترقی یافتہ اور مشینی و سائنسی دور میں ان کی وہ افادیت نہیں رہی اسلئے وَاَعِدُّ والھم مَا اسْتطعتم، کے تحت آج کل کے جنگی ہتھیار مثلاً میزائیل، راکٹ، ٹینک، جنگی جہاز اور بم کی تیاری ضروری ہے۔ صاحب روح المعانی کی صراحت : صاحب روح المعانی نے اس آیت کے تحت بندوق کا ذکر صراحت کے ساتھ کیا ہے اگر مرحوم آج بقید حیات ہوتے تو مشینی گنوں اور طیاروں اور ٹینکوں جنگی جہازوں اور ہائیڈروجن بموں وغیرہ کا عجب نہیں کہ ذکر کردیتے، ایسی ہی تصریح رشید رضامصری کے یہاں ملتی ہے۔ واطلاق الرمی فی الحدیث یشمل کل مایرمیٰ بہ العدو من سھمٍ او قذیفةِ منجنیق اَوْ طیارةٍ او بندوقیة او مِدْفع و غیر ذلک، واِن لم یکن ھذا معروفاً فی عصرہ ﷺ فان الفظ یشتملہ . (المنار) فالوا جب علی المسلمین فی ھذا العصر بنص القرآن صنع الندافع بانواعِھاوالبنادق والدبابات والطیارات وانشائِ السُفُن الحربیةِ بانوا عھا .(المنار) آیت کا خلاصہ : آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی حکومت کو ہمہ وقتی تیاری دشمنوں سے مقابلہ کی رکھنی چاہیے، اور یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ مذکورہ تمام سازو سامان عملاً کیونکر ممکن ہے ؟ جب تک کہ خود مسلمانوں کے پاس انجینیر اور دیگر ماہرین فن نہ ہوں۔
Top