Tafseer-e-Jalalain - At-Tawba : 1
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ
بَرَآءَةٌ : بیزاری (قطعِ تعلق) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖٓ : اور اس کا رسول اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے عٰهَدْتُّمْ : تم سے عہد کیا مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
(اے اہل اسلام اب) خدا اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے مشرکوں سے جن سے تم نے عہد کر رکھا تھا بیزاری (اور جنگ کی تیاری ہے)
سُوْرَةُالتَّوْبَةِ مَدَنِیَّة او اِلاَّالاٰ یتین اخرھا مائة وث الا ایة سورة توبہ مدنی ہے مگر دو آیتیں یا ایک آیت جو کہ سورة توبہ کی آخری آیت ہے کل ایک سو تیس آیتیں ہیں۔ وضاحت : بعض نسخوں میں پہلا اَوْ نہیں ہے جیسا کہ جمل کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے، ازروئے تحقیق یہی قول راجح معلوم ہوتا ہے مطلب : مطلب یہ ہے کہ پوری سورة توبہ مدنی ہے مگر علی اختلاف القولین سورت کی آخری دو آیتیں یا ایک آیت مکی ہے آخری دو آیتیں '' لقد جاء کم رسول من انفسکم الخ ہیں '' بعض حضرات نے الاّ آیة کو مائة وثلثون سے مستثنیٰ قرار دیا ہے اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ کل ایک سو تیس آیتیں ہیں مگر ایک کم یعنی ایک سو انتیس آیتیں ہیں اس صورت میں ترکیب واضح ہیں چناچہ ایک روایت 129 کی بھی ہے۔ فائدہ : جن نسخوں میں پہلا او نہیں ہے اس صورت میں دو قول ہوں گے (1) پوری سورت مدنی ہے یا آخری دو آیتوں کے سوا پوری سورت مدنی ہے اور جن نسخوں میں او ہے اس کے اعتبار سے تین قول ہوں گے۔ (2) پوری سورت مدنی۔ (3) پوری سورت مدنی مگر آخری دو آیتیں۔ (4) پوری سورت مدنی مگر آخر کی ایک آیت، حالانکہ قول صرف دو ہی ہیں، معلوم ہوا کہ پہلا او سبقت قلم یا کتابت کی غلطی ہے۔ ترکیب : سورة التوبة بترکیب اضافی مبتداء، مدنیة مستثنیٰ منہ الا حرف استثنائ، ال آیتین ذوالحال، آخرھا بترکیب اضافی حال، حال ذوالحال سے مل کر معطوف علیہ، اَوْ حرف عطف الا حرف استثناء آیة معطوف، معطوف اپنے معطوف علیہ سے مل کر مبتداء کی خبر اول، مائة وثلٰثون ممیز آیة تمیز محذوف، ممیز اپنی تمیز سے مل کر مبتداء کی خبر ثانی، مبتداء اپنی دونوں خبروں سے مل کر جملہ اسمیہ خبریہ ہوا۔ آیت نمبر 1 تا 7 ترجمہ : اس سورت کے آغاز میں بسم اللہ نہیں لکھی گئی اس لئے کہ اس کا آنحضرت ﷺ نے حکم نہیں فرمایا جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا ہے جس کو حاکم نے روایت کیا ہے، اور اسی کے ہم معنی حضرت علی ؓ سے روایت کیا گیا ہے کہ بسم اللہ امان ہے اور یہ سورت تلوار (جہاد) کے ذریعے رفع امن کے لئے نازل ہوئی ہے اور (حضرت) حذیفہ ؓ سے مروی ہے کہ تم اس سورت کو سورة توبہ کہتے ہو حالانکہ یہ سورة عذاب ہے اور (امام) بخاری نے (حضرت) براء ؓ (بن عازب) سے روایت کیا ہے کہ یہ آخری سورت ہے جو نازل ہوئی، یہ اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے بیزاری کا اعلان ہے (جو کہ) ان مشرکوں کے متعلق ہے جن سے تم نے مطلق (یعنی غیر میعادی) یا چار ماہ سے کم وبیش کا عہد کیا ہو اور (مشرکوں نے) نقض عہد کیا ہو (اظہار بیزاری) اللہ تعالیٰ کے قول (فسیحوا الخ) میں مذکور ہے (یعنی) اے مشرکو ! تم چار ماہ تک ملک میں امن کے ساتھ اور چل پھر لو، جس کی ابتداء شوال سے ہوگی آئندہ دلیل کی رو سے اور اس مدت کے بعد تمہارے لئے امن نہ ہوگا، یاد رکھو تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو یعنی اس کے عذاب سے بچ کر نہیں نکل سکتے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ منکرین (حق) کو رسوا کرنے والا ہے (یعنی) ان کو دنیا میں قتل کے ذریعہ اور آخرت میں آگ کے ذریعہ ذلیل کرنے والا ہے اور اعلان عام ہے اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے تمام لوگوں کے لئے حج اکبر (یعنی) قربانی کے دن بایں طور کہ اللہ تعالیٰ مشرکوں اور ان کے معاہدوں سے بری ہے اور اس کا رسول بھی بری ہے اور آپ ﷺ نے اسی سال حضرت علی ؓ کو (مکہ) بھیجا اور یہ (ہجرت کا) نواں سال تھا، چناچہ حضرت علی ؓ نے یوم نحر میں منیٰ کے میدان میں ان آیات کا اعلان فرمایا، اور یہ کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے گا اور نہ کوئی بیت اللہ کا بحالت عریاں طواف کرے گا، (رواہ البخاری) پس اگر تم کفر سے توبہ کرلو، تو یہ تمہارے ہی لئے بہتر ہے اور اگر تم ایمان سے روگردانی کرو گے تو یاد رکھو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو اور کافروں کو دردناک عذاب کی خبر دے دو اور وہ قتل وقید ہے دنیا میں اور آگ ہے آخرت میں بجز ان مشرکوں کے جن سے تم نے معاہدے کئے درد عذاب کی خبر دے دو اور وہ قتل وقید ہے دنیا میں اور آگ ہے آخرت میں بجز ان مشرکوں کے جن سے تم نے معاہدے کئے ہوں پھر انہوں نے تمہارے معاہدہ کی مدت پوری ہونے تک وفا کرو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ وفا کرنے والے متقیوں کو پسند کرتا ہے، پس جب (اشہر حرم) حرام مہینے گذر جائیں اور وہ معاہدہ کی آخری مدت ہے تو مشرکوں کو قتل کرو جہاں پائو حل میں یا حرم میں، اور ان کو قید کرلو اور ان کو قلعوں میں اور گڑھوں میں محصور کردو یہاں تک کہ قتال یا اسلام کے لئے مجبور ہوجائیں اور ان کی خبر لینے کے لئے ہر گھات میں تاک لگا کر بیٹھو (یعنی) ان کی گذرگاہوں پر بیٹھو اور کلَّ کا نصب حذف جار کی وجہ سے ہے پھر اگر وہ کفر سے توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰة ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو ، اور ان سے تعرض نہ کرو بیشک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے کو معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے اور اگر مشرکوں میں سے کوئی تم سے پناہ چاہے (یعنی) قتل سے آپ سے پناہ چاہے تو اس کو قتل سے امن دے دو (اَحَد) اس فعل (محذوف) کی وجہ سے مرفوع ہے جس کی تفسیر استجارک کر رہا ہے تاکہ وہ اللہ کا کلام قرآن سنے پھر اس کو اس کے مأمن (یعنی) پناہ گاہ تک پہنچا دو ، یعنی اگر وہ ایمان نہ لائے تو اس کو اس کی امن کی جگہ پہنچا دو ، اور وہ اس کی قوم کا علاقہ ہے تاکہ وہ اپنے معاملہ میں غور کرسکے یہ مذکورہ بات اس لئے ضروری ہے کہ یہ لوگ پوری طرح باخبر نہیں ہیں۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : عن حذیفة، اس اضافہ کا مقصد حضرت علی ؓ کے قول کی تائید ہے۔ قولہ : ھذہ، اس اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ برآء ة، ھذہ مبتداء محذوف کی خبر ہے اس سے رد ہوگیا ان حضرات کا جنہوں نے کہا ہے کہ برآء ة مبتداء ہے اور الی الّذین عَاھَدْتم الخ، برآء ة کی خبر ہے، اسلئے کہ براء ة نکرہ ہے جس کا متبداء واقع ہونا درست نہیں ہے قولہ : واصلة مفسر علام نے واصلة محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ من اللہ میں من ابتدائیہ ہے جو واصلة محذوف سے متعلق ہے تقدیر عبارت یہ ہے ھذہ براء ة واصلة الی الذین عاھدتم من اللہ ورسولہ۔
Top