Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 107
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ
اَلَمْ تَعْلَمْ
: کیا نہیں جانتے تم
اَنَّ اللہ
: کہ اللہ
لَهُ
: اس کے لئے
مُلْكُ
: بادشاہت
السَّمَاوَاتِ
: آسمانوں
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
وَمَا
: اور نہیں
لَكُمْ
: تمہارے لئے
مِنْ
: سے
دُوْنِ اللہِ
: اللہ کے سوا
مِنْ
: کوئی
وَلِيٍّ
: حامی
وَ لَا
: اور نہ
نَصِیْرٍ
: مددگار
کیا تمہیں خبر نہیں ہے کہ زمیں اور آسمان کی فرمانروائی اللہ ہی کے لیے ہے اور اس کے سوا کوئی تمہاری خبر گیری کرنے اور تمہاری مدد کرنے والا نہیں ہے؟
[ اَلَمْ تَعْلَمْ : کیا تو نے جانا ] [ اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ ] [ لَهٗ : کے لیے ہے ] [ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ : زمین اور آسمانوں کا اقتدار ] [ وَمَا لَكُم : اور تمہارے لیے نہیں ہے ] [ ْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے علاوہ ] [ مِنْ وَّلِيٍّ : کوئی بھی کارساز ] [ وَّلَا نَصِيْرٍ : اور نہ ہی مددگار ] [ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ ] بعینہٖ یہی عبارت ابھی اوپر A اور B میں گزری ہے ‘ لفظی ترجمہ ہے ” کیا تُو نے جانا ہی نہیں کہ بیشک اللہ تعالیٰ “۔ با محاورہ اور سلیس تراجم اوپر دیکھیے۔ 2: 64: 1 (4) [ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ] (اس ہی کے لیے ہے بادشاہی : سلطنت آسمانوں کی اور زمین کی) A ” لَہٗ “ یہ لام الجر (لِ ) + (ہ) ضمیر مجرور ہے۔ لام الجر ضمیروں کے ساتھ مفتوح (لَ ) آتا ہے۔ اس لام (لِ ) کے مختلف معانی و استعمالات پر الفاتحہ : 2 [ 1: 2: 1 (2)] میں بات ہوئی تھی۔ یہاں یہ ” کے لیے ‘ کا (حق) ‘ کی (ملکیت) “ کے معنی میں آیا ہے۔ اس لیے اس کا ترجمہ ” واسطے اس کے ہے : اس ہی کے لیے ہے : اسی کی ہے : اسی ہی کی ہے “ کی صورت میں کیا گیا ہے اور چونکہ اس سے پہلے ” أَنَّ اللّٰہَ “ آیا ہے اور ” لَہٗ “ کی ضمیر اللہ کے لیے ہے اس لیے مترجمین نے محاورے کے مطابق اللہ کے ساتھ ” اس “ کو جمع نہیں کیا بلکہ ” اس “ کی بجائے اسم جلالت ” اللّٰہ “ لگا کر ترجمہ کیا ہے ‘ یعنی ” اللہ ہی کے لیے : اللہ ہی کی “ کی صورت میں اور ” ہی “ لگانے کی وجہ ” لہ “ کا پہلے آنا ہے۔ اس پر مزید بات ” الاعراب “ میں ہوگی۔ B ” مُلْکُ “ جو یہاں مضاف ہے ‘ کا مادہ ” م ل ک “ اور وزن ” فُعْلٌ“ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ” مَلَکَ یَمْلِکُ = مالک ہونا “ کے معانی باب اور استعمال پر الفاتحہ : 4 [ 1: 3: 1 (1)] میں بات ہوئی تھی اور پھر البقرہ : 102 [ 2: 62: 2 (1)] میں خود یہی لفظ (مُلْکُ ) پہلی دفعہ گزر چکا ہے۔ یہ لفظ مفرد مرکب معرفہ نکرہ مختلف حالتوں میں قرآن کریم کے اندر پچاس کے قریب مقامات پر آیا ہے اور اس کے بنیادی معنی میں قوت ‘ قبضہ اور حکم کا مفہوم ہے۔ اس کا اردو ترجمہ ” بادشاہی ‘ حکمرانی ‘ سلطنت ‘ اقتدار “ کی صورت میں کا جاسکتا ہے۔ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے مذکور ہو تو اس کے معنی ” حقیقی بادشاہی اور اقتدارِ اعلیٰ “ کے ہوتے ہیں۔ C ” السَّمٰوٰتِ “ جس کا مادہ ” س م و “ اور وزن (لام تعریف نکال کر) ” فَعالات “ ہے۔ یہ ” السَّمائ “ (آسمان) کی جمع مؤنث سالم ہے۔ لفظ ” السَّمائ “ (واحد) پر بات البقرہ : 19 [ 2:14: 1 (3)] میں ہوئی تھی اور ” سمٰوٰت “ (جمع نکرہ) کا لفظ پہلی دفعہ البقرہ : 29 [ 2: 20: 1 (10)] میں زیر بحث آیا تھا۔ (سَبْعَ سمٰوٰتٍ کے ضمن میں) ۔ ” السمٰوٰت “ کا اردو ترجمہ ” آسمانوں “ ہے۔ D ” وَ الاَرْض “ میں ” و “ تو عاطفہ (بمعنی ” اور “ ) ہے اور لفظ ” الارض “ (بمعنی ” زمین “ ) کے مادہ اور معنی وغیرہ پر پہلی دفعہ البقرہ : 11 [ 2: 9: 1 (4)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔ ۔ اس طرح اس پوری عبارت (اَنَّ اللّٰہَ لَہٗ مُلْکَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ) کو ملا کر اس کا با محاورہ و سلیس ترجمہ (لفظی ترجمے اوپر لکھ دیئے گئے ہیں) ” لہ “ کی ضمیر ” ہ “ کی بجائے اس کے مرجع ” اللّٰہ “ کو استعمال کرتے ہوئے ” اللہ : ہی کو : ہی کے لیے : ہی کو : ہے بادشاہی : سلطنت : بادشاہت : آسمانوں اور زمین کی “ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ بعض نے اردو جملے کے ساخت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ” آسمان : آسمانوں اور زمین کی سلطنت : بادشاہت اسی اللہ کی : خدا ہی کی ہے “ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ بعض نے ” أَنَّ اللّٰہَ لَہٗ “ کی ترکیب کی وجہ سے ترجمہ ” کہ حق تعالیٰ (اللہ) ایسے ہیں کہ خاص ان ہی کی ہے …“ کی صورت میں کیا ہے۔ تما تراجم کا مفہوم یکساں ہے۔ 2: 64: 1 (5) [ وَ مَا لَکُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ …] اس حصہ عبارت کے تمام کلمات بھی پہلے گزر چکے ہیں۔ ہر ایک کی مختصراً وضاحت یوں ہے : A ” وَ “ کا ترجمہ تو ” اور “ ہی سے ہوگا۔ تاہم یہ ” و “ استیناف کے لیے ہے کیونکہ یہاں سے ایک نیا مضمون شروع ہوتا ہے۔ اور اسی لیے اس سے سابقہ جملے کے آخر پر وقف مطلق ” ط “ لکھا گیا ہے۔ مستانفہ واو (یا واو الاستیناف) پر البقرہ :8 [ 2:7:1 (1)] میں مفصل بات ہوئی تھی۔ B ” مَا “ (نہیں ہے) ۔ یہاں ” مَا “ نافیہ مشابہہ بِلَیْسَ ہے ‘ جسے ” مَا الحِجازیہ “ بھی کہتے ہیں ‘ دیکھیے البقرہ : 3 [ 2: 2: 1 (5)] ۔ C ” لَکُمْ “ (تمہارے لیے ‘ تمہارا ‘ تمہارے واسطے) اس میں ضمیر مجرور (کم) بمعنی ” تم “ سے پہلے لام الجر (لِ ) ہے جو ضمیر کی وجہ سے مفتوح ہے۔ لام الجر کے مختلف معانی پر الفاتحہ : 1 [ 1: 2: 1 (2)] بات ہوئی تھی۔ D ” مِنْ دُوْنِ اللّٰہ “ (اللہ کے سوا : کے بغیر : کے مقابلے پر) بعینہٖ یہی ترکیب البقرہ : 24 [ 2: 17: 1 (9)] میں گزر چکی ہے۔ وہاں ” دُونَ “ کے بطور ظرف مجاف (جو ) اکثر مجرور ” بِمِنْ “ بھی آتا ہے) کے استعمال اور اس کے 12 مختلف معانی پر بات ہوئی تھی۔ یہ لفظ (دُوْنَ ) مختلف تراکیب میں (اور زیادہ تر مجرور ” بِمِن “ ہو کر) قرآن کریم میں 92 مقامات پر آیا ہے۔ ۔ اس طرح اس حصہ عبارت (وَ مَا لَکُمْ مِنْ دُونِ اللّٰہ) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ” اور نہیں ہے تمہارے لیے سوائے اللہ کے “ جسے زیادہ تر نے ” اللہ کے سوا “ اور بعض نے ” خدا کے سوا “ یا ” حق تعالیٰ کے سوا “ سے ترجمہ کیا ہے۔ ” واسطے تمہارے : تمہارے لیے “ کو اکثر نے ” تمہارا “ کی سلیس اور با محاورہ شکل دی ہے۔ بعض نے ” تم مسلمانوں کا “ سے ترجمہ کیا ہے جسے تفسیری ترجمہ کہہ سکتے ہیں۔ 2: 64: 1 (6) [ … مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ ] یہ حصہ عبارت سابقہ (مندرجہ بالا) عبارت کے ساتھ (بلحاظِ ترکیب جملہ) مربوط ہے۔ اسی لیے اس عبارت کے آخر پر اور اس عبارت کے شروع میں نقطے (…) ڈالے گئے ہیں۔ اس (زیر مطالعہ) عبارت کے بھی سب الفاظ بلحاظِ ” مادہ “ تو پہلے گزر چکے ہیں ‘ البتہ بلحاظِ ساخت و اشتقاق دو لفظ ” وَلِیّ “ اور ” نَصِیر “ نئے ہیں ‘ لہٰذا ان کی وضاحت ضروری ہے۔ تفصیل یوں ہے : A ” مِنْ “ یہاں تنصیص نکرہ کے لیے ہے ‘ یعنی اس سے نکرہ میں مزید عموم اور تاکید کا مفہوم ہوتا ہے۔ دیکھیے البقرہ : 3 [ 2: 2: 1 (5)] اسے ” مِنْ زائدہ “ بھی کہتے ہیں ‘ اس کی وجہ سے اگلے لفظ (وَلِی اور نَصِیر ) سے پہلے ترجمہ میں ” کوئی بھی “ لگے گا۔ C ” وَلِیّ “ کا مادہ ” و ل ی “ اور وزن ” فَعِیل “ ہے (جو یہاں مجرور آیا ہے) گویا یہ لفظ در اصل ” وَلِیْیٌ“ تھا جس میں آخری دو ” ی “ (یْ ی) مدغم ہو کر ” یّ “ بن گئی ہیں۔ ۔ اس مادہ سے فعل مجرد ” وَلِیَ یَلِی = قریب ہونا ‘ آس پاس ہونا “ پر البقرہ : 64 [ 2: 41:1 (4)] میں بات ہوئی تھی۔ یہ لفظ (وَلِیّ ) اس فعل مجرد سے صفت مشبہ کا صیغہ بھی ہوسکتا ہے اور اسم مبالغہ بھی۔ پہلی صورت میں اس کا مطلب ہوگا ” ہر وقت ‘ ہر جگہ قریب اور پاس “ اور دوسری صورت میں اس کا مطلب ہوگا ” بہت زیادہ قریب اور پاس “ … اسی لیے اس لفظ کا ترجمہ ” دوست : یار : حمایتی : حامی “ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ اور اس کا ترجمہ ” سرپرست : کارساز “ بھی ہوسکتا۔ ان سب الفاظ میں بنیادی مفہوم ” قرب اور نزدیکی “ کا ہے ‘ چاہے وہ بلحاظِ مکان (جگہ) ہو یا بلحاظِ نسب یا بلحاظِ دین یا بلحاظ حمایت اور دوستی ہو … لفظ ” وَلِیّ “ قرآن کریم میں مفرد مرکب معرفہ نکرہ مختلف اعرابی حالتوں میں 44 جگہ استعمال ہوا ہے اور اکثر جگہ اللہ تعالیٰ کو اہل ایمان کا ” وَلیّّ “ کہا گیا ہے۔ اسی لفظ کی جمع مکسر ” اَولیائُ “ (غیر منصرف) ہے اور یہ لفظ بھی قرآن کریم میں چالیس سے زائد جگہ وارد ہوا ہے۔ C ” وَ لا “ (اور نہ ہی) ” وَ “ بمعنی ” اور “ کئی دفعہ گزر چکا ہے اور ” لَا “ بمعنی ” نہ : نہیں “ یہاں ” مَا نافیہ “ کے بعد آیا ہے ‘ لہٰذا ” نفی “ کے مفہوم کی تکرار کے باعث اس کا اردو میں صحیح مفہوم ” نہ “ کے بعد ” ہی “ لگانے سے واضح ہوسکتا ہے۔ D ” نَصِیر “ (مددگار) ۔ جس کا مادہ ” ن ص ر “ اور وزن ” فَعِیل “ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ” نصَر ینصُر = مدد کرنا “ کے باب اور معنی وغیرہ پر البقرہ : 48 [ 2: 31: 1 (7)] میں بات ہوئی تھی۔ خیال رہے ” نصَر “ کا اصل مفہوم ایسی مدد کرنا ہوتا ہے جو آدمی کو (دشمن وغیرہ کے مقابلے پر) کامیاب کر دے۔ لفظ ” نَصِیر “ اس فعل سے اسم المبالغہ کا صیغہ ہے (عموماً صفت مشبہ فعل لازم سے اور اسم مبالغہ فعل متعدی سے آتا ہے) ۔ اردو میں قریباً سب نے ہی اس کا ترجمہ ” مددگار “ کیا ہے۔ ۔ یوں اتنی عبارت (… مِن وَلِیٍّ وَ لَا نَصِیر) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ”… کوئی بھی دوست اور نہ ہی کوئی مددگار “۔ جیسا کہ ابھی مذکور ہوا لفظ ” وَلِیّ “ کا ترجمہ بعض دوسرے الفاظ (حمایتی ‘ حامی ‘ کارساز ‘ سرپرست وغیرہ) سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ نَصِیر کا ترجمہ ” مدد والا “ بھی کیا گیا ہے جو خالص اردو ترکیب ہے۔ اکثر نے یہاں ” مِنْ “ کے ترجمہ میں ” کوئی “ کے ساتھ ” بھی “ کو اور ” وَ لَا “ کے ترجمہ میں ” نہ “ کے ساتھ ” ہی “ کو نظر انداز کیا ہے۔ البتہ بعض نے نکرہ (کوئی) کی تکرار کو ملحوظ رکھ کر ترجمہ ” نہ کوئی دوست ہے نہ کوئی مددگار “ کوئی نہیں حامی اور نہ کوئی مددگار “ کی صورت میں کیا ہے اور بعض نے (شاید اردو محاورہ کی خاطر) ایک جگہ ” کوئی “ اور دوسری جگہ ” نہ “ کا استعمال کیا ہے۔ یعنی ” کوئی دوست اور نہ مددگار : کوئی حمایتی ہے اور نہ مددگار : کوئی حمایتی اور نہ مددگار “ کی صورت میں۔ جبکہ بعض حضرات نے اردو جملے کی ساخت کا لحاظ رکھتے ہوئے سابقہ عبارت (وَ مَا لَکُمْ مِنْ دُونِ اللّٰہ) کے ” مَا “ کا ترجمہ آخر پر بصورت ” نہیں “ لائے ہیں۔ مثلاً ” کوئی یار و مددگار بھی نہیں : کوئی دوست : یار و مددگار نہیں “ کی صورت میں … تمام تراجم کا مفہوم یکساں ہے۔ البتہ جس نے ” کوئی بھی : نہ ہی “ کے ساتھ یا ” کوئی “ اور ” نہ “ کی تکرار سے ترجمہ کیا ہے وہ اصل سے قریب تر ہے۔ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ [ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ ] ابھی اوپر گزرا ہے۔ اگلی عبارت میں [ لَہٗ ] جار مجرور (لام الجر (لِ ) + ضمیر واحد مذکر مجرور (ہٗ ) مل کر خبر مقدم ہے جسے قائم مقام خبر بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ خبر ہی کا کام دے رہا ہے۔ اس کے بعد [ مُلْکُ ] اپنے بعد والی پوری ترکیب اضافی سمیت مبتدا مؤخر (لہٰذا) مرفوع ہے۔ علامت رفع ” کُ “ کا ضمہ ہے کیونکہ یہ لفظ آگے مضاف ہونے کے باعث خفیف بھی ہے۔ [ السمٰوٰت ] مضاف الیہ (لہٰذا) مجرور ہے ‘ علامت جر آخری ” اتِ “ ہے جو جمع مؤنث سالم میں اعراب کی علامت ہوتی ہے (… ات) ۔ [ و ] عاطفہ ہے جس سے [ الارض ] ” السمٰوٰت “ پر معطوف ہوکر (خود بھی) مجرور بالاضافہ ہوگیا ہے ‘ علامت جر ” ضِ “ کی کسرہ (-ِ ) ہے کیونکہ الارض معرف باللام بھی ہے۔ یوں یہ پورا مرکب اضافی (مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ) مبتداء مؤخر ہے جس کی خبر مقدم کا کام ” لہ “ (جار مجرور …) دے رہا ہے۔ اور یہ پورا جملہ اسمیہ (مبتدا مؤخر + خبر مقدم) ” ان “ کی خبر لہٰذا محلاً مرفوع ہے۔ گویا اصل جملہ ایک طرح سے ” اَنَّ اللّٰہَ مَالِکُ : مَلِکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ “ بنتا تھا مگر ” لہ “ کو خبر مقدم بنا کر ” اسی ہی کے لیے : اسی ہی کا ہے “ کا زوردار مفہوم پیدا ہوگیا ہے۔ یہ زور اور تاکید عام سادہ جملہ اسمیہ کے ذریعے ظاہر نہیں کیا جاسکتا۔ D وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلاَ نَصِیْرٍ [ وَ ] مستانفہ ہے جس کا ترجمہ تو ” اور “ ہی کیا جاتا ہے مگر اس میں ” اور یہ بات بھی توجہ طلب ہے “ کا مفہوم ہے ‘ اسی لیے بعض نے اس ” و “ کے ترجمہ کی قوسین میں یوں وضاحت کی ہے ” اور (یہ بھی سمجھ رکھو کہ) “۔ [ مَا ] نافیہ حجازیہ ہے [ لکم ] جار مجرور (ل + کم) خبر مقدم (یا قائم مقام خبر) ہے جس کا مبتدا مٔخر آگے آ رہا ہے۔ [ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ] میں من جار ہے جو ظروف سے پہلے اکثر لگتا ہے۔ ” دون “ ظرفِ مکان ہے جو آگے مضاف بھی ہے ‘ اور ” اللّٰہ “ مضاف الیہ مجرور ہے۔ اگر شروع میں ” مِن “ نہ ہوتا تو ظرف منصوب ہو کر مضاف ہوتا یعنی بصورت ” دون اللّٰہ “ (اور یہ ترکیب بھی قرآن کریم میں بہت جگہ آئی ہے۔ یہ مرکب (من دون اللّٰہ) آگے آنے والے مبتداء مؤخر (ولی) سے متعلق ہے ‘ یعنی اسی کا حال یا صفت کہہ سکتے ہیں۔ [ مِن ] زائدہ برائے تنصیص نکرہ ہے۔ [ وَلِیٍّ ] مبتدأ مؤخر لہٰذا محلاً مرفوع ہے مگر یہ مجرور ” بمن “ ہے اور اسی ” من “ کی وجہ سے ” من ولی “ کا ترجمہ ” کوئی بھی دوست : حمایتی “ بنتا ہے۔ [ و ] عاطفہ ہے اور [ لَا ] تاکید نفی کے لیے ہے (صرف ” نفی “ (نہیں) تو ابتدائی ” مَا “ (الحجازیۃ) میں بھی موجود تھی) اسی تاکید کی وجہ سے یہاں ” لا “ کا ترجمہ ” نہ ہی “ سے ہوگا [ نصیر ] واو عاطفہ کے ذریعہ مبتدا مؤخر (ولی) پر معطوف ہے۔ گویا دوسرا مبتداء مؤخر ہے۔ یہ بھی محلاً مرفوع ہے ‘ اگرچہ مجرور بِمِن (وَلِیّ ) پر عطف کی وجہ سے لفظاً مجرور ہی ہے۔ گویا اصل منفی (بمَا) جملہ بنتا تھا ” مَا لَکُمْ وَلِیٌّ و نَصِیْرٌ“ (نہیں ہے تمہارا کوئی دوست اور مددگار) [ اور یہ بالکل ایسا ہے جیسے کہیں ” مَا لَہ ابنٌ وَ بِنتٌ ۔ اس کی کوئی بیٹا ‘ بیٹی نہیں ہے ] ۔ پھر ” وَلِیّ “ کے شروع میں ” من “ زائدہ برائے تنصیص لگنے سے ” مِن وَلِیٍّ “ کے معنی ” کوئی بھی دوست “ ہے اور واو عاطفہ کے بعد تاکید نفی کے لیے ” لا “ لگا کر ’ و لا “ کے معنی ہوئے ” اور نہ ہی “۔ پھر اس دوست : مددگار کی صفت یا حال کے طور پر اور تاکید کا مفہوم پیدا کرنے کے لیے ” مِن دُون اللّٰہِ “ کو مبتدأ مؤخر سے بھی مقدم کردیا گیا ہے ‘ ورنہ سادہ جملہ ” مَا لَکُم وَلِیٌٍّ وَ نَصِیرٌ مِن دُونِ اللّٰہِ “ بھی ہوسکتا تھا مگر اس میں وہ تاکید اور نفی کے عموم (وسیع تر مفہوم) والی بات نہ ہوتی۔ 2: 64: 3 الرسم اس قطعہ آیات کے تمام کلمات کا رسم املائی اور رسم عثمانی یکساں ہے ما سوائے صرف ایک کلمہ ’ السمٰوٰت “ کے ‘ جس کا رسم املائی تو ” سَمَاوَات “ ہے مگر رسم عثمانی میں بالاتفاق یہاں اس کی کتابت میں دونوں الف (” م “ کے بعد والا اور ” و “ کے بعد والا) حذف کردیئے جاتے ہیں۔ اور پھر پڑھنے کے لیے ان کو بذریعہ ضبط ظاہر کیا جاتا ہے۔ اسی لفظ کے رسم پر سب سے پہلے البقرہ : 29 [ 2: 20: 3] میں بات ہوئی تھی ‘ چاہیں تو اسے بھی دوبارہ دیکھ لیجیے۔ 2: 64: 4 الضّبط اس (زیر مطالعہ) قطعہ کے ساتھ ہم اپنی اختلافاتِ ضبط کے بارے میں ” تحریری “ نمونے پیش کرنے کی پالیسی میں تھوڑی سی تبدیلی کرنا چاہتے ہیں۔ اس تبدیلی کی وضاحت سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ” رسم “ و ” ضبط “ کے باہمی تعلق : ان کی اہمیت اور ضبط میں اختلاف ک بنیادی اسلوب کے بارے میں بعض تعارفی امور مختصراً بیان کردیئے جائیں (ان میں سے بعض چیزوں کی طرف مقدمہ کتاب میں بھی اشارہ کردیا گیا تھا) ۔ ہم نے کتاب کے اصل موضوع ” لغات و اعراب “ کے ساتھ قرآن کریم کے ” رسم “ اور ” ضبط “ کے قواعد کا بیان اہل شوق اور اصحاب ذوق کی ضیافت طبع کے لیے شامل کر رکھا ہے۔ ” رسم “ کا تعلق قرآنی عبارات کی درست کتابت ‘ طریق ہجاء و املاء سے ہے ‘ جب کہ ” ضبط “ کا تعلق قرآن کریم کی مکتوب عبارت کو (بذریعہ حرکات) درست پڑھنے سے ہے ‘ اگرچہ قرآن کریم کے متعدد کلمات کو مسلمہ اور مستند (سات یا دس) قراء ات کے مطابق مختلف صورتوں میں بھی پڑھا جاتا ہے۔ تاہم بنیادی طور پر تمام قراء ات رسم کے تابع ہوتی ہیں یعنی کلمہ کی ہجاء اور املاء کا طریقہ ایک ہی ہوتا ہے مگر اس کو کسی خاص طریق پر پڑھنے کے لیے حرکات مختلف طریقے سے لگائی جاتی ہیں۔ ۔ اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ سورة الفاتحہ میں ” مَالِک “ کو ” مَلِک “ بھی پڑھنا خود رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔ تاہم اس کا قرآنی (عثمانی) رسم ” مٰلِک “ (الف کے بغیر) ہے۔ اب ” مَالِک “ والی قراءت (مثلاً عاصم ‘ الکسائی اور خلف وغیرہ ‘ جن میں سے حفص عن عاصم کی قراءت ہی تمام ایشیائی ممالک میں رائج ہے) کے لیے اسے ضبط کے ساتھ بصورت ” مٰلِک “ لکھتے ہیں۔ مگر ” مَلِک “ والی قراءت (مثلاً ورش اور قالون (عن نافع) اور الدوری (عن ابی عمرو) کی روایت کے مطابق اسے ” مَلِک “ ہی کے ضبط سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ تاہم بعض دفعہ ایک ہی قراءت کے باوجود ضبط میں فرق ہوتا ہے۔ مثلاً (قراءت حفص ہی کے مطابق) ” مَالِک “ پڑھنے کے لیے ” ملِک “ کے علاوہ (جو بیشتر مشرقی ممالک کا ضبط ہے) اسی لفظ کو بصورت ” مَلِک “ بھی لکھتے ہیں (جو بیشتر عرب اور افریقی مماک کا ضبط ہے …) البتہ بعض ایشیائی ملکوں (خصوصاً ایران اور ترکی) میں (جہاں حفص والی قراءت ہی رائج ہے) لفظ کا اصل رسم الخط بگاڑ کر اس کا طریق ہجاء ہی اپنی ضرورت (قراءت) کے مطابق بدل کر ” مَالِک “ ہی کردیا گیا ہے۔ جو رسم عثمانی کی خلاف ورزی اور لہٰذا اصولی طور پر ایک غلط بات ہے … بلکہ ان ملکوں میں رسم عثمانی کی اور بھی بہت سی خلاف ورزیوں کا رواج ہوگیا ہے۔ ۔ اس طرح قرآنی یا عثمانی ” رسم “ کو تو ایک بنیادی حیثیت اور تقدس حاصل ہے مگر ” ضبط “ میں ہر ملک کے اپنے عام تعلیمی قواعد اور علمی مزاج کے مطابق ہمیشہ اصلاح اور تبدیلی ہوتی رہی ہے بلکہ یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ بیشتر عرب اور افریقی ممالک میں ضبط کے قواعد عربی صَرف و نحو کو مد نظر رکھ کر بنائے گئے ہیں مگر برصغیر اور دیگر ایشیائی ملکوں میں یہ قاعدے گرامر سے زیادہ صوتی قواعد کو سامنے رکھ کر بنائے گئے ہیں۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ بعض ممالک کا طریق ضبط بلحاظ قواعد زیادہ دقیق اور جامع ہے۔ جب کہ بیشتر (عجمی) ممالک میں طریق ضبط کے قواعد اختصار اور اجمال پر مبنی ہوتے ہیں جن کی تفصیل استاد سے زبانی معلوم ہوتی ہے۔ ۔ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ ” ضبط “ خواہ کتنا ہی دقیق اور جامع ہو پھر بھی قرآنی کلمات کی درست قراءت کے لیے استاد کی زبانی تعلیم کے بغیر چارہ نہیں۔ بلکہ قراءت کے بعض طریقے تو محض علاماتِ ضبط کے ذریعے سکھائے ہی نہیں جاسکتے (مثلاً روم ‘ اشمام ‘ امالہ ‘ اختلاس وغیرہ) ہر ایک ملک میں رائج ضبط کے بنیادی قواعد (اجمالاً یا تفصیلاً ) کسی ” قرآنی قاعدہ “ کے ذریعے اور استاد کی عملی تعلیم سے سکھائے اور پڑھائے جاتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ کسی ایک طریق ضبط کے مطابق پڑھا ہوا … خصوصاً ناظرہ خوان … کسی دوسرے ملک کے طریق ضبط کے مطابق لکھے گئے نسخہ قرآن (مصحف) سے درست تلاوت ہرگز نہیں کرسکتا۔ ۔ ضبط کے ان مختلف طریقوں میں فرق کی بعض نمایاں وجوہ (یا مظاہر) کی بنیاد حسب ذیل امور ہیں۔ A حرکاتِ ثلاثہ (زبر ‘ زیر ‘ پیش) کی شکل میں فرق اور ان حرکات کی صورت کے مطابق (علامت) تنوین کی مختلف صورتوں اور ان کے مواقع استعمال میں اختلاف ‘ مثلاً اخفاء و اظہار کے لیے الگ الگ یا یکساں صورت تنوین۔ B علامت سکون کی شکل میں فرق ( ” ْ “ “ یا ” ْ “ ) اور اس کے مواقع استعمال یا عدم استعمال کا اختلاف۔ C علامت تشدید ( ّ ) اور اس کے مواقع استعمال میں فرق ‘ خصوصاً ادغام تام اور ناقص کی صورت میں اسے استعمال کرنا یا نہ کرنا۔ D مُظرۃ اور مخفاۃ (” ن “ اور ” م “ ) کا فرق ظاہر کرنا یا نہ کرنا اور مکتوب یا ملفوظہ نون ساکنہ کے ” م “ میں اقلاب کو ظاہر کرنا یا نہ کرنا۔ ۔ ہمزۃ القطع کے لیے علامات کا فرق (ئ ‘ ۔ ' ۔ وغیرہ) اور ان کے مواقع استعمال میں اختلاف۔ F ہمزۃ الوصل کو ظاہر کرنے کے مختلف طریقے ‘ جن میں سے سب سے سادہ اور سہل (اگرچہ غیر علمی) طریقہ برصغیر اور بہت سے ایشیائی ممالک کا ہے۔ اور نسبتاً پیچیدہ اور ناقص طریقہ عرب ممالک کا ہے کیونکہ اس میں زیادہ بھروسہ قاری کی عربی دانی پر کیا گیا ہے۔ اور سب سے جامع اور علمی طریقہ افریقی ممالک کا ہے۔ G رسم میں محذوف (مگر قراءت میں ملفوظ) حروف کو ظاہر کرنے کے طریقے میں اختلاف (مثلاً ” لہٗ “ کے بعد والی ” و “ ، ” بِہٖ “ کے بد والی ” ی “ اور ” مٰلک “ کے میم کے بعد والا الف) H رسم میں زائد موجود (مگر غیر ملفوظ) حروف کو ظاہر کرنے کا طریقہ (مثلاً ” اُولٰئک “ میں ” ی “ ) I ” و “ اور ” ی “ ممدودہ کو علامت سکون دینا یا نہ دینا۔ J خاص علاماتِ ضبط (اشمام ‘ روم ‘ اختلاس ‘ اِمالہ وغیرہ) استعمال کرنا یا نہ کرنا۔ K لام الف کے احکام کا فرق یعنی ” لا “ کا کون سا سرا الف ہے اور کونسا لام۔ L بعض حروف کے طریق اعجام میں فرق۔ مثلاً افریقی ممالک میں ”“ اور ” ق “ کو ”“ اور ” ق “ کی صورت میں لکھنا… اور افریقی ممالک ہی میں آخر پر آنے والے حروف ” ینفق “ (ی نق) کو نقطے سے خالی رکھنا۔ اگرچہ اب بعض افریقی ملکوں میں ان دونوں چیزوں (ف ق کے اعجام اور آخر والے حروف ” ینفق “ والا قاعدہ) میں مشرقی ملکوں والا طریقہ اختیار کیا جانے لگا ہے۔ ۔ اور اسی (مذکورہ بالا) فق اور اختلاف کے مطالعہ اور مشاہدہ کے لیے کتاب میں ” ضبط “ کی بحث بھی شامل کردی گئی ہے۔ یہ فرق قواعد کے بیان کی صورت میں بھی واضح کیا جاسکتا ہے (جیسا کہ شروع میں کیا بھی گیا تھا) اور ایک ہی تلفظ اور قراءت کے باوجود مختلف ضبط کے تحریری نمونے سامنے لانے سے بھی وضاحت کی جاسکتی ہے (جیسا کہ ہم کرتے چلے آئے ہیں) اور چونکہ دنیا بھر میں رائج قرآنی ضبط کی تمام صورتوں کو بطور نمونہ سامنے لانا ممکن نہ تھا اس لیے ہم نے صرف چار قسم کے (نمائندہ) نمونے پیش کرنے پر اکتفا کیا ہے۔ یعنی علی الترتیب A برصغیر میں رائج ضبط (جس سے ہم بخوبی آشنا ہیں) B ایران اور ترکی میں رائج ضبط (جو بہت سی باتوں میں مماثل ہوتا ہے) C مصر اور ایشیائی عرب ممالک میں رائج طریق ضبط اور D افریقی ممالک کا طیرق ضبط (جو بہت سی باتوں میں عرب ممالک کے ضبط سے مشابہ ہوتا ہے) ۔ ۔ اس کے بعد ہم نے اب تک عموماً ہر قطعہ آیات کے ہر ایک کلمہ کے لیے اس ” چہار گانہ “ ضبط کا نمونہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اب (اگرچہ خاصی دیر کے بعد) یہ فیصلہ کیا ہے کہ جو لفظ یا مرکب پہلے گزر چکا ہے اس کا آئندہ صرف گزشتہ حوالہ دے دیا جائے گا۔ اور اب بطور نمونہ صرف ان الفاظ اور مرکبات کو لیا جائے گا جو پہلی دفعہ سامنے آئیں گے یا جن میں ضبط کا کوئی خاص قاعدہ سامنے آئے گا۔ خیال رہے کہ اکثر الفاظ (یا مرکبات) کے حروف کے ضبط کا ما قبل اور ما بعد والے حرف کے تلفظ (اور لہٰذا ضبط) سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس لیے ایک ایک (مفرد) لفظ کی بجائے بعض دفعہ مرکب (کم از کم دو ) الفاظ کو لینا پڑے گا۔ ۔ اب اس نئی پالیسی کے تحت زیر مطالعہ قطعہ آیات کے کلمات کے ضبط کی صورت یوں بنتی ہے … پہلے ہم ترتیب وار ان کلمات کا (گزشتہ حوالے کے ساتھ) ذکر کرتے ہیں جو پہلے گزر چکے ہیں۔ ” مَا “ یہ لفظ اس سے پہلے 45 دفعہ گزر چکا ہے۔ پہلی دفعہ البقرہ : 4 [ 2: 3: 4] میں اس کے ضبط پر بات ہوئی تھی۔ ” مِنْ “ یہ لفظ مفرد مرکب اور ضبط کی مختلف صورتوں (مظہرہ ‘ مخفاۃ یا متحرک) کے ساتھ پچاس سے زائد دفعہ گزر چکا ہے۔ یہاں یہ نون مظہرہ ہے۔ پہلی دفعہ نون مظہرہ کا ضبط البقرہ : 49 [ 2: 32: 4] میں آیا تھا۔ (نون مخفاۃ کا ضبط پہلی دفعہ البقرہ : 4 [ 2: 3: 4] میں گزرا ہے) ” اَوْ “ پہلی دفعہ البقرہ : 19 [ 2: 14: 4] میں گزرا ہے۔ ” بِخَیر “ لفظ ” خَیْر “ پہلی دفعہ البقرہ : 54 [ 2: 34: 4] میں دیکھیے۔ ” مِنْھَا “ یہ لفظ اس سے پہلے آٹھ دفعہ گزر چکا ہے۔ پہلی دفعہ البقرہ : 25 [ 2: 18: 14] میں آیا تھا۔ البتہ ما قبل کی تنوین کے ساتھ زیر مطالعہ میں پہلی دفعہ آیا ہے جس کی وجہ سے ” م “ پر تشدید آئی ہے یعنی ” مِّنْھا “ کی صورت میں … ” اَوْ “ کا حوالہ ابھی گزرا ہے۔ ” اَلَمْ تَعْلَمْ “ میں سے ” اَلَمْ “ کا ضبط پہلی دفعہ البقرہ : 33 [ 2: 23: 4] کے ” اَلَمْ اَقُلْ “ میں گزرا ہے۔ ” تَعْلَمْ “ کے ضبط میں کسی کا اختلاف نہیں ‘ سوائے اس کے کہ بعض علامت سکون ” ْ “ استعمال کرتے ہیں۔ ” اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ“ یہ پورا جملہ البقرہ : 20 میں گزر چکا ہے اور اس کے کلمات کے ضبط کے لیے دیکھیے [ 2: 15: 4] صرف اس فرق کے ساتھ کہ یہاں ” اَنَّ “ ہے اور وہاں ” اِنَّ “ تھا۔ ” مُلْک “ پہلے البقرہ : 102 میں گزر چکا ہے [ 2: 62: 4] ۔ ” السَّمٰوٰت والارض “ کے تمام کلمات کے ضبط پر البقرہ : 33 [ 2: 23: 4] میں بات ہوئی تھی۔ ” وَ مَا لَکُمْ “ میں سے ” وَ “ سب سے پہلے الفاتحہ : 5 میں آیا تھا۔ ” ما “ پر ابھی اوپر بات ہوئی ہے۔ ” لَکُمْ “ اس سے پہلے ” م “ کے سکون اور ما بعد والے میم کی تشدید کے ساتھ [ 2: 20: 4] میں گزرا ہے۔ ویسے ” لَکُمْ “ مختلف صورتوں میں دس دفعہ گزر چکا ہے۔ ” مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ “ پوری ترکیب کا ضبط البقرہ : 23 [ 2: 17: 4] میں گزر چکا ہے۔
Top