Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 107
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ
اَلَمْ تَعْلَمْ : کیا نہیں جانتے تم اَنَّ اللہ : کہ اللہ لَهُ : اس کے لئے مُلْكُ : بادشاہت السَّمَاوَاتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَمَا : اور نہیں لَكُمْ : تمہارے لئے مِنْ : سے دُوْنِ اللہِ : اللہ کے سوا مِنْ : کوئی وَلِيٍّ : حامی وَ لَا : اور نہ نَصِیْرٍ : مددگار
کیا تجھ کو یہ معلوم نہیں کہ آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کے لئے ہے اور حق تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی حمایتی اور مددگار نہیں2
2 اور اگر ہم کسی آیت کے حکم کو موقوف کردیتے ہیں یا اس آیت کو یاد رکھنے والوں کے حافظ سے بھلا دیتے ہیں تو اس کی بجائے اس سے بہتر اور نافع آیت لے آتے ہیں یا اسی کی مثل دوسری آیت لے آتے ہیں کیا اے اعتراض کرنیوالے تو اتنی بات کو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ ہر شئی پر قادر ہے اور کیا اے معترض تو یہ نہیں جانتا کہ آسمان اور زمین کی سلطنت خاص اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی یار و مددگار نہیں۔ (تیسیر) نسخ کے معنی ہیں ایک چیز کو دوسری چیز کے ذریعہ ہٹانا اور زائل کرنا اور اس کے پیچھے دوسری چیزی کو ثابت کرنا جیسے دھوپ کا سایہ کو نسخ کرنا اور سایہ کا دھوپ کو منسوخ کرنا یا بڑھاپے کا جوانی کو نسخ کر کے اس کی جگہ قائم ہوجانا اور ایک چیز کو بعینہ دوسرے مادہ میں نقل دینا جیسے کہہ دیتے ہیں میں نے کتاب کو نسخ کرایا یعنی کتاب کی عبارت دوسری کتاب میں نقل کرا لی ۔ اب یہ لفظ کبھی فقط ازالہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی فقط ثابت کرنے کے معنی میں اور کبھی دونوں باتوں کے لئے استعمال کرتے ہیں اسی سے تناسخ ہے اور اسی سے وہ مناسخہ ہے جو میراث کی تقسیم میں استعمال ہوتا ہے۔ بہرحال قرآن کریم میں ایک حکم کو دوسرے حکم سے ہٹانے کے لئے استعمال ہوا ہے۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ پہلے حکم کا جو وقت اللہ کے نزدیک بندوں کی مصلحت کے لحاظ سے مقرر ہوتا ہے جب وہ وقت پورا ہوجاتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا حکم بھیج دیا جاتا ہے۔ خواہ وہ آیت قرآن میں اور حافظوں کے ذہن میں باقی رہے یا حکم کے ساتھ قرآن سے بھی نکال لی جائے اور ذہنوں سے بھی بھلا دی جائے پھر اس کی جگہ دوسری آیت نازل فرما دیں جو پہلے حکم کے قائم مقام ہو اور پہلے حکم سے ملتا جلتا ہو یا پہلے حکم سے آسان ہو اور ثواب میں پہلے حکم کے ثواب سے زیادہ ہو اور یا بالکل ہی معاف فرما دیں۔ غرض یہ سب صورتیں نسخ کی ہیں۔ پھر یہ نسخ یا تو اس طور پر ہو کہ قرآن کی منسوخ آیت ہی کو قرآن میں نہ رکھا جائے اور حکم کے استھ تلاوت کو بھی منسوخ کردیا جائے یا تلاوت باقی رکھی جائے اور حکم اٹھا لیا جائے یا ناسخ اور منسوخ دونوں کو رکھا جائے یعنی ناسخ کی بھی تلاوت باقی رہے اور منسوخ کی بھی یا حکم باقی رہے اور تلاوت منسوخ کردی جائے اور جس طرح قرآن کی آیت قرآن کے لئے ناسخ ہوتی ہے۔ اسی طرح صحیح اور قطعی الثبوت حدیث بھی ناسخ ہوسکتی ہے علی اختلاف اقوال الائمہ رحمہم اللہ اجمعین اور نسخ احکام میں ہوا کرتا ہے اخبار میں نہیں ہماری ابتدائی تقریر سے یہ بات صاف ہوگئی ہوگی کہ حق تعالیٰ کا نسخ وہ نہیں ہے جیسے کوئی حکومت اپنے حکم کو یا کوئی حکیم اپنے نسخہ کو غلط سمجھ کر بدلات ہے یا کوئی حکومت اپنا حکم رعایا کی مخالفت سے ڈر کر بدلتی ہے بلکہ وہ حکیم مطلق اور مالک مطلق ان تمام عیوب سے پاک ہے اس کے نسخ کا مطلب یہ ہے کہ اس کے علم میں وہ حکم ہی اس وقت کے لئے تھا جب وہ وقت منتہی اور پورا ہوگیا تو اس کو ہٹا لیا اور جو دوسرا حکم اس کے بعد جاری ہونیوالا تھا اس کا اعلان کردیا۔ پہلا حکم بھی بندوں کی مصلحت کے اعتبار سے تھا اور دوسرا حکم بھی بندوں کی مصلحت کے اعتبار سے ہے اور بالکل اس حکم کو اٹھا لینا بھی مصالح خداوندی اور بندوں کے حالات کے اعتبار سے ہے۔ آیت کے ایک حصہ میں نسخ اور اس کی صورت کا اعلان ہے اور آیت کے باقی ٹکڑے بطور دلائل کے ہیں یعنی معترض کو بتایا ہے کہ اللہ ہر شئے پر قدرت رکھتا ہے ایک حکم کی جگہ دوسرے حکم کو جاری کرنے پر پورا قادر ہے پھر اس دعویٰ کی دلیل ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کی تمام سلطنت اسی کی ہے ۔ اس کو کسی کا خوف نہیں۔ پھر تمہارا سرپرست و حمایتی اور تمہارا مددگار ہے جو حکم دیتا ہے اس میں تمہاری مصلحت کی رعایت ہوتی ہے۔ سبحان اللہ الفاظ کی کیا خوب ترتیب و تشکیل ہے۔ حضرت شاہ صاحب قدیر پر حاشیہ کہتے ہیں۔ یہ بھی یہود کا ایک طعن تھا کہ تمہاری کتاب میں بعضی آیت نسخ ہوتی ہے۔ اگر اللہ کی طرف سے تھی تو پھر کیا عیب دیکھا کہ موقوف کی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عیب نہ پہلی میں تھا نہ پچھلی میں پر حاکم ہر وقت جو چاہے سو حکم کرے۔ (موضح القرآن) آگے کی آیت میں مسلمانوں کو خطاب فرماتے ہیں اور اہل کتاب کی دشمنی سے آگاہ کرتے ہیں اور وقت کے مناسب مسلمانوں کو عمل کرنیکا طریقہ بتاتے ہیں اور بعض مسلمانوں جو کبھی کبھی غیر ضروری سوال کرلیا کرتے تھے اس سے منع فرماتے ہیں۔ (تسہیل)
Top