Jawahir-ul-Quran - Al-Hajj : 73
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجْتَمَعُوْا لَهٗ١ؕ وَ اِنْ یَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَیْئًا لَّا یَسْتَنْقِذُوْهُ مِنْهُ١ؕ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! ضُرِبَ : بیان کی جاتی ہے مَثَلٌ : ایک مثال فَاسْتَمِعُوْا : پس تم سنو لَهٗ : اس کو اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ جنہیں تَدْعُوْنَ : تم پکارتے ہو مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا لَنْ يَّخْلُقُوْا : ہرگز نہ پیدا کرسکیں گے ذُبَابًا : ایک مکھی وَّلَوِ : خواہ اجْتَمَعُوْا : وہ جمع ہوجائیں لَهٗ : اس کے لیے وَاِنْ : اور اگر يَّسْلُبْهُمُ : ان سے چھین لے الذُّبَابُ : مکھی شَيْئًا : کچھ لَّا يَسْتَنْقِذُوْهُ : نہ چھڑا سکیں گے اسے مِنْهُ : اس سے ضَعُفَ : کمزور (بودا ہے) الطَّالِبُ : چاہنے والا وَالْمَطْلُوْبُ : اور جس کو چاہا
اے لوگو ایک مثل کہی ہے86 سو اس پر کان رکھو جن کو تم پوجتے ہو اللہ کے سوائے ہرگز نہ بنا سکیں گے ایک مکھی اگرچہ سارے جمع ہوجائیں اور اگر کچھ چھین لے ان سے مکھی چھڑا نہ سکیں وہ اس سے بودا ہے چاہنے والا اور جن کو چاہتا ہے
86:۔ ” یَا اَیُّھَا النَّاسُ الخ “ یہ سورت کے دونوں مضمونوں کے ساتھ متعلق ہے پہلے سے بالذات اور دوسرے سے بالتبع یعنی اللہ کے سوا تم جن خود ساختہ معبودوں کو مصائب میں پکارتے ہو وہ بالکل عاجز ہیں تمہاری مدد کرنا تو درکنار وہ اپنی مدد بھی نہیں کرسکتے اور اپنے نفی نقصان کے مالک بھی نہیں لہذا وہ نذر و نیاز کا استحقاق بھی نہیں رکھتے اس طرح اس سے شرک اعتقادی اور شرک فعلی دونوں کی نفی ہوگئی ابتدائے سورت سے یہاں تک مسئلہ توحید کے اثبات اور اعتقادی اور عملی شرک کے رد پر دلائل عقلیہ اور نقلیہ پیش کیے گئے۔ یہاں معبودان باطلہ کے عاجز و بےبس ہونے اور غیر اللہ کی پکار کے بےسود ہونے کو ایک تمثیل سے واضح کیا گیا ہے یعنی اے مشرکین اللہ کے سوا تم جن خود ساختہ معبودوں کو مصائب و حاجات میں پکارتے ہو وہ تمہاری حاجت برآری اور داد رسی نہیں کرسکتے۔ وہ بالکل عاجز ہیں حاجت روا اور مشکل کشا تو صرف وہی ہوسکتا ہے جو سب کا خالق ومالک ہے اور تمہارے معبود تو سارے مل کر بھی ایک مکھی پیدا کرنے قدرت بھی نہیں رکھتے مکھی کو پیدا کرنا تو درکنار اگر ان کے کھانے پینے کی چیزوں میں سے مکھی کچھ تھوڑا سا اپنے منہ میں ڈال کرلے اڑے تو وہ اس کے منہ سے چھڑانے کی طاقت بھی نہیں رکھتے تو جو معبود اس قدر عاجز اور بےبس ہوں ان کی عبادت کرنا۔ ان کو کارساز سمجھ کر مصائب میں پکارنا اور ان کی رضا جوئی کے لیے نذریں نیازیں دینا نہایت ہی بےعقلی کی بات ہے۔ ” ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ “ طالب یعنی غیر اللہ کو پکارنے والا اور مطلوب یعنی معبود باطل دونوں کمزور ثابت ہوئے۔ طالب اس طرح کہ اس نے غیر محل سے حاجت مانگی اور مطلوب اس طرح کہ اپنے پجاری کو کچھ نہ دے سکا۔ الطالب عابد غیر اللہ تعالیٰ والمطلوب الالھۃ (روح ج 17 ص 202) ۔ اس آیت سے اولیاء اللہ کو حاجات و مشکلات میں پکارنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے بعض جہلا کا خیال ہے کہ اولیاء اللہ ان کی حاجت روائی کرتے ہیں اس لیے وہ ان کی نذریں دیتے ہیں وہ ان کو قبروں میں متصرف و مختار سمجھتے ہیں اور بعض کا خیال ہے کہ وہ مختلف شکلوں میں، متشکل ہو کر قبروں سے باہر نکل آتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں۔ ” اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا “ اشارۃ الی ذم الغالین فی اولیاء اللہ تعالیٰ حیث یستغیثون بھم فی الشدۃ غافلین عن اللہ تعالیٰ وینذرون لھم النذور والعقلاء منھم یقولون انھم وسائلنا الی اللہ تعالی۔ ولا یخفی انھم فی دعواھم اشبہ الناس بعبدۃ الاصنام القائلین انما نعبدھم لیقربونا الی اللہ زلفی۔ ومنھم من یثبت التصرف لھم جمیعا فی قبورھم۔ والعلماء منھم یحصرون التصرف فی القبور فی اربعۃ او خمسۃ واذا طولبوا بالدلیل قالوا ثبت ذالک بالکشف قاتلھم اللہ تعالیٰ ما اجھلھم و اکثر افترائھم ومنھم من یزعم انھم یخرجون من القبور ویتشکلون باشکال مختلفۃ۔ وکل ذالک باطل لا اصل لہ فی الکتاب والسنۃ وکلا سلف الامۃ وقد افسد ھؤلاء علی الناس دینھم الخ (روح ج 17 ص 112، 113) ۔
Top