Jawahir-ul-Quran - Al-Fath : 2
لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ یَهْدِیَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ
لِّيَغْفِرَ : تاکہ بخشدے لَكَ اللّٰهُ : آپ کیلئے اللہ مَا تَقَدَّمَ : جو پہلے گزرے مِنْ : سے ذَنْۢبِكَ : آپکے ذنب (الزام) وَمَا تَاَخَّرَ : اور جو پیچھے ہوئے وَيُتِمَّ : اور وہ مکمل کردے نِعْمَتَهٗ : اپنی نعمت عَلَيْكَ : آپ پر وَيَهْدِيَكَ : اور آپ کی رہنمائی کرے صِرَاطًا : راستہ مُّسْتَقِيْمًا : سیدھا
تاکہ معاف کرے تجھ کو اللہ جو آگے ہوچکے تیرے گناہ3 اور جو پیچھے رہے اور پورا کر دے تجھ پر اپنا احسان اور چلائے تجھ کو سیدھی راہ
3:۔ ” لیغفر لک “۔ ذنب (گناہ) سے اس کا حقیقی معنی مراد نہیں، کیونکہ گناہ کا صدور انبیاء (علیہم السلام) سے محال ہے۔ اس لیے ذنب سے یہاں ترک اولی مراد ہے، کیونکہ آنحضرت ﷺ کے مقام عالی کے اعتبار سے وہ ذنب ہے اگرچہ حقیقت میں ذنب نہیں۔ از قبیل حسنات الابرار سیئات المقربین یا وہ امور مراد ہیں جنہیں آنحضرت ﷺ اپنی نظروں میں ذنب (گناہ) سمجھتے تھے اگرچہ وہ حقیقت میں گناہ نہ تھے بلکہ خلاف اولی بھی نہ تھے۔ والمراد بالذنب ما فرط من خلاف الاولی بالنسبۃ الی مقامہ (علیہ الصلوۃ والسلام) فھو من قبیل حسنات الابرار سیئات المقربین وقد یقال المراد ما ھو ذنب فی نظرہ العالی ﷺ وان لم یکن ذنبا ولا خلاف الاولی عندہ تعالیٰ (روح ج 26 ص 91) ۔ حضرت علامہ انور شاہ کا شمیری (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ذنب سے مراد الزام ہے یعنی آپ پر لگائے گئے مشرکین ومنافقین کے تمام جھوٹے الزامات سے بری اور پاک فرمائے۔ ” لیغفر “ میں لام ارادہ کا ہے اور اس کے بعد فعل ” اراد “ اور ” ان “ مصدریہ مقدر ہے۔ ای اراد غفر ان ذنوبک اور یہدیک میں ہدایت سے معنی موضوع لہ مراد نہیں، بلکہ اثبات علی الہدایۃ مراد ہے ای لیثبتک علی الہدایۃ یعنی آپ کو راہ راست پر قائم رکھے۔ قالہ الشیخ (رح) تعالیٰ ای یثبتک علی الہدی الی ان یقبضک الیہ (قرطبی ج 16 ص 263) ۔ یا لام برائے عاقبت یا علت غائیہ ہے (روح، جلالین) ۔ اتمام نعمت سے دین کا غلبہ، اسلام کی ملک بھر میں نشر و اشاعت اور آئندہ معرکوں میں فتح و نصرت اور دیگر دینی و دنیوی نعمتیں مراد ہیں (بحر، روح) ۔ ” نصرا عزیزا “ ایسی مدد جس سے آپ کو دشمن پر غلبہ حاصل ہوجائے اور آپ کو کوئی مغلوب نہ کرسکے (مدارک، روح) یعنی یہ فتح مبین ہم نے آپ کو اس لیے عطا فرمائی ہے تاکہ اس سے آپ کو یہ چاروں مقصد حاصل ہوجائیں۔ اس کی خاطر آپ نے جو مصائب و شدائد برداشت کیے ہیں ان کی بدولت آپ کے تمام گناہ (بتفسیر مذکور) معاف کردئیے جائیں اور اس کے نتیجہ میں دین اسلام کو اور آپ کے دشمنوں پر غلطہ عطا کیا جائے اور آپ کو صراط مستقیم پر قائم و دائم رکھا جائے اور اس کے اندرون پردہ آپ کی اس طرح مدد و نصرت کی جائے کہ آئندہ آپ ہی غالب رہیں اور آپ پر کوئی غلبہ نہ پا سکے (بحر، روح، قرطبی وغیرہ)
Top