Tafseer-e-Baghwi - Al-Fath : 2
لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ یَهْدِیَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ
لِّيَغْفِرَ : تاکہ بخشدے لَكَ اللّٰهُ : آپ کیلئے اللہ مَا تَقَدَّمَ : جو پہلے گزرے مِنْ : سے ذَنْۢبِكَ : آپکے ذنب (الزام) وَمَا تَاَخَّرَ : اور جو پیچھے ہوئے وَيُتِمَّ : اور وہ مکمل کردے نِعْمَتَهٗ : اپنی نعمت عَلَيْكَ : آپ پر وَيَهْدِيَكَ : اور آپ کی رہنمائی کرے صِرَاطًا : راستہ مُّسْتَقِيْمًا : سیدھا
(اے محمد) ﷺ ہم نے تم کو فتح دی فتح بھی صریح و صاف
انا فتحنالک فتحا کی تفسیر 1 ۔” انا فتحنا لک فتحا مبینا “ اس فتح کی تعیین میں اختلاف ہوا ہے۔ حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ یہ فتح مکہ ہے اور مجاہدہ (رح) فرماتے ہیں فتح خیبر ہے اور اکثر حضرات اس بات پر ہیں کہ صلح حدیبیہ ہے اور فتح کا معنی بند اور پیچیدہ چیز کھ کھلنا اور مشرکین کے ساتھ حدیبیہ کی صلح مشکل تھی حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو کھول دیا۔ قتادہ (رح) نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ یہ صلح حدیبیہ ہے۔ حضرت براء ؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ تم فتح مکہ کو فتح شمار کرتے حالانکہ فتح مکہ تو فتح ہے ہی، ہم تو حدیبیہ کے دن بیعت رضوان کو فتح شمار کرتے تھے، ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ چودہ سو تھے اور حدیبیہ ایک کنواں ہے ہم نے اس کو کھینچا تو اس میں ایک قطرہ بھی پانی کا نہ تھا۔ یہ بات نبی کریم ﷺ کو پہنچی تو آپ (علیہ السلام) اس کے پاس آئے اور اس کو منڈیر پر بیٹھ گئے، پھر پانی کا ایک برتن منگوایا، پھر وضو کیا، پھر کلی کی اور دعا کی، پھر اس ک و اس کنویں میں ڈال دیا، پھر ہم نے اس کو تھوڑی دیر چھوڑا، پھر اس نے جو ہم نے چاہا ہمارے برتن وغیرہ بھر دیئے اور شعبی (رح) باری تعالیٰ کے قول ” انا فتحنا لک فتحا مبینا “ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ فتح حدیبیہ ہے اور انہوں نے خیبر کی کھجوریں کھائیں اور ہدی اپنی جگہ تک پہنچ گئی اور روم فارس پر غالب آگئے تو مومنین اہل کتاب کے مجوسیوں پر غالب آنے سے خوش ہوئے۔ زہری (رح) فرماتے ہیں کہ صلح حدیبیہ سے بڑی کو فتح نہ تھی کیونکہ مشرکین مسلمانوں کے ساتھ مل جل گئے، ان کی بات سنتے تو اسلام ان کے دلوں میں جگہ بنا گیا۔ تین سالوں میں بہت زیادہ لوگ اسلام لے آئے اور اسلام کا لشکر بڑھ گیا۔ اللہ تعالیٰ کا قول ” انا فتحنا لک فتحا مبینا “ یعنی ہم نے آپ (علیہ السلام) کے لئے یہ واضح فیصلہ کردیا اور ضحاک (رح) فرماتے ہیں کہ ” انا فتحنا لک فتحا مبینا “ بغیر قتال کے اور صلح فتح مبین میں سے ہے۔ کہا گیا ہے کہ لام باری تعالیٰ کے قول ” لیغفر “ میں لام کے ہے اس کا معنی یہ ہے کہ ہم نے آپ کو فتح مبین دی تاکہ آپ (علیہ السلام) کے لئے مغفرت کے ساتھ مکمل نعمت فتح کی صورت میں جمع ہوجائے اور حسین بن فضل (رح) فرماتے ہیں کہ باری تعالیٰ کے قول ” واستغفر لذنبک وللمومنین والمومنات “ کی طرف لوٹایا گیا ہے۔
Top