بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Jawahir-ul-Quran - Al-Fath : 1
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ
اِنَّا فَتَحْنَا : بیشک ہم نے فتح دی لَكَ : آپ کو فَتْحًا : فتح مُّبِيْنًا : کھلی
ہم نے فیصلہ کردیا2 تیرے واسطے صریح
2:۔ پہلا حصہ : ” انا فتحنا “ سنہ 6 ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ آپ صحابہ ؓ کی ایک جماعت کے ہمراہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے ہیں، کچھ لوگ سر منڈا رہے ہیں اور کچھ بال چھوٹے کرا رہے ہیں۔ آپ نے یہ خواب صحابہ ؓ کو سنایا تو وہ بہت خوش ہوئے اس کے بعد ماہ ذیقعدہ میں آپ صحابہ کرام ؓ کی ایک بہت بڑی جماعت کے ساتھ زیارت بیت اللہ کے ارادے سے روانہ ہوئے مقام حدیبیہ میں موجود صحابہ ؓ کی تعداد چودہ سو تھی۔ جب آپ یہاں پہنچے تو آپ نے حضرت عثمان بن عفان ؓ کو اپنا پیغام دے کر مکہ روانہ فرمایا تاکہ وہ آپ کا پیغام قریش کو پہنچائیں۔ پیغام یہ تھا کہ میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بیت اللہ کی زیارت کے لیے آیات ہوں، لڑائی اور جنگ کی خاطر نہیں آیا ہوں، اس لیے تم مزاحمت نہ کرنا۔ قریش نے زیارت بیت اللہ کی اجازت نہ دی اور حضرت عثمان ؓ سے کہا اگر تم چاہو تو بیت اللہ کا طواف کرسکتے ہو، لیکن انہوں نے جواب دیا کہ یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے بغیر اکیلا طواف کرلوں۔ چناچہ حضرت عثمان طوف کے بغیر واپس چلے گئے۔ آخر قریش کی طرف سے سہیل بن عمرو، آنحضرت ﷺ کے پاس آیا اور آپ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کی شرطیں یہ تھیں۔ 1 ۔ مشرکین کا کوئی آدمی اگر مسلمانوں کے پاس چلا جائے تو اسے واپس کردیا جائے گا۔ 2:۔ اگر کوئی مسلمان مشرکین کے پاس پہنچ جائے تو وہ واپس نہیں کریں گے۔ 3 ۔ مسلمان امسال بیت اللہ کی زیارت نہیں کرسکیں گے، بلکہ آئندہ سال آئیں گے اور شرط یہ ہے کہ ہتھیاروں کے بغیر مکہ میں داخل ہوں۔ صلح کی شرائط بظاہر مسلمانوں کی کمزوری ظاہر کر رہی تھیں۔ اس لیے اکثر مسلمانوں کے چہرے اداس ہوگئے۔ صلح کے بعد جب آپ مقام حدیبیہ سے روانہ ہوئے تو راستے میں یہ سورت نازل ہوئی (روح، خازن، معالم وغیرہ) ۔ ” انا فتحنا “ یہ پہلی بشارت ہے ای حکمنا لک بالفتح۔ یعنی ہم نے آپ کو عظیم الشان فتح عطا کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور فتح مبین سے فتح مکہ مراد ہے۔ یا مطلب یہ ہے کہ ہم نے آپ کو ایک شاندار فتح عطاء فرمائی ہے اور اس سے صلح حدیبیہ مراد ہے۔ صلح حدیبیہ حقیقت میں ایک عظیم الشان فتح تھی جو فتح مکہ کا سبب بنی اور جس کی بناء پر مشرکین کو مسلمانوں کے اندر رہ کر ان کے احوال واطوار کا مطالعہ و مشاہدہ کرنے کا موقع ملا اور اسلام کی خوبیاں ان کے دلوں میں جاگزیں ہوگئیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صلح حدیبیہ سے لے کر فتح مکہ تک دو سالوں میں اس قدر لوگ اسلام میں داخل ہوئے کہ فتح مکہ میں آپ کے ہمراہیوں کی تعداد دس ہزار سے زیادہ تھی۔ قال الزھری لم یکن فتح اعظم من صلح الحدیبیۃ اختلط المشرکون بالمسلمین و سمعوا کلامہم وتمکن الاسلام فی قلوبھم واسلم فی ثلاث سنین خلق کثیر وکثر بہم سواد الاسلام (روح ج 26 ص 84) ۔ قال الزھری لقد کان الحدیبیۃ اعظم الفتوح وذلک ان النبی ﷺ جاء الیھا فی الف واربعمائۃ فلما وقع الصلح مشی الناس بعضہم فی بعض وعلموا وسمعوا عن اللہ، فما اراد احدا الاسلام الا تکن منہ، فما مضت تلک السنتا الا والمسلمون قد جاء وا الی مکۃ فی عشرۃ الاف (قرطبی ج 16 ص 261) ۔
Top