Taiseer-ul-Quran - Al-Fath : 2
لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ یَهْدِیَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ
لِّيَغْفِرَ : تاکہ بخشدے لَكَ اللّٰهُ : آپ کیلئے اللہ مَا تَقَدَّمَ : جو پہلے گزرے مِنْ : سے ذَنْۢبِكَ : آپکے ذنب (الزام) وَمَا تَاَخَّرَ : اور جو پیچھے ہوئے وَيُتِمَّ : اور وہ مکمل کردے نِعْمَتَهٗ : اپنی نعمت عَلَيْكَ : آپ پر وَيَهْدِيَكَ : اور آپ کی رہنمائی کرے صِرَاطًا : راستہ مُّسْتَقِيْمًا : سیدھا
تاکہ اللہ آپ کی سب اگلی اور پچھلی لغزشیں معاف کردے 2 اور آپ پر اپنی نعمت پوری کردے اور آپ کو سیدھی راہ پر چلائے
2 ذَنْبٌ ہر اس فعل کو کہتے ہیں جس کا انجام برا ہو (مفردات القرآن) اور بمعنی ہر وہ کام جس کے نتیجہ میں مذمت ہو (فقہ اللغۃ اور اس لفظ کا اطلاق اس قدر عام ہے کہ چھوٹی چھوٹی لغزشوں سے لے کر بڑے بڑے گناہوں پر بھی ہوسکتا ہے۔ سب سے بڑا گناہ قتل ناحق ہوتا ہے۔ اس کے لئے بھی یہی لفظ آیا ہے۔ سیدنا موسیٰ اللہ تعالیٰ سے فرماتے ہیں : ( وَلَهُمْ عَلَيَّ ذَنْۢبٌ فَاَخَافُ اَنْ يَّقْتُلُوْنِ 14۝ۚ ) 26 ۔ الشعراء :14) اور میرے اوپر ان کا ایک گناہ (خون ناحق) ہے اور مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے مار ہی نہ ڈالیں۔ اور رسول اللہ نے فرمایا : (عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰي يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَتَعْلَمَ الْكٰذِبِيْنَ 43؀) 9 ۔ التوبہ :43) اللہ آپ کو معاف فرمائے آپ نے ان منافقوں کو کیوں (جہاد سے رخصت کی) اجازت دی ؟۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ معافی کسی گناہ یا غلطی کے کام پر ہی ہوتی ہے۔ اور اس آیت میں ذنب سے مراد تدبیری امور میں بعض اجتہادی غلطیاں ہیں جو بشریت کا خاصہ ہیں۔ اور اگلے پچھلے گناہ معاف کردینے کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ کو معلوم تھا کہ آپ دیدہ دانستہ کوئی گناہ کر ہی نہیں سکتے۔ اس آیت کی آپ کو جو خوشی ہوئی اور اس کا آپ نے جو تاثر قبول کیا وہ مندرجہ ذیل احادیث میں ملاحظہ فرمائیے : 1۔ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب آپ حدیبیہ سے واپس مدینہ جارہے تھے۔ آپ نے فرمایا : مجھ پر ایک آیت (لِیَغْفِرَلَکَ ) ایسی اتری ہے جو مجھے زمین کی ساری دولت سے پیاری ہے۔ صحابہ کہنے لگے : یارسول اللہ مبارک ہو، مبارک ہو ! اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے تو وضاحت فرمادی مگر ہمارے ساتھ کیا معاملہ ہوگا ؟ تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ ( لِّيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا وَيُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ ۭ وَكَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِيْمًا ۝ ۙ ) 48 ۔ الفتح :5) (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) 2۔ صلح حدیبیہ کے بعد آپ کی عبادت میں اضافہ :۔ سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ جب صحابہ کو کوئی حکم دیتے تو ایسے کاموں کا دیتے جنہیں وہ (بآسانی) کرسکتے۔ صحابہ عرض کرتے، ہم آپ جیسے نہیں۔ آپ کے تو اللہ نے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردیئے ہیں۔ اس بات پر آپ غصہ میں آجاتے اور غصہ کے آثار آپ کے چہرہ پر نمودار ہوجاتے اور فرماتے : (سن لو) تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اسے جاننے والا میں ہوں (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب قول النبی انا اعلمکم باللّٰہ) 3۔ سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ : آپ رات کو (تہجد کی نماز میں) اتنا زیادہ قیام فرماتے کہ آپ کے پاؤں تڑخ جاتے (اور ایک روایت میں ہے کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے) سیدہ عائشہ ؓ نے پوچھا : یارسول اللہ ! آپ اتنی محنت کیوں کرتے ہیں ؟ آپ کے تو اللہ تعالیٰ نے سب اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیئے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا : کیا میں اللہ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں ؟ پھر جب آپ کا جسم (آخر عمر میں) فربہ ہوگیا تو آپ یہ نماز بیٹھ کر پڑھا کرتے۔ جب رکوع کا وقت آتا تو کھڑے ہو کر کچھ قرأت فرماتے۔ پھر رکوع کرتے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)
Top