Jawahir-ul-Quran - Al-Qalam : 15
اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِ اٰیٰتُنَا قَالَ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ
اِذَا : جب تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْهِ : اس پر اٰيٰتُنَا : ہماری آیات قَالَ : کہتا ہے اَسَاطِيْرُ : کہانیاں ہیں الْاَوَّلِيْنَ : پہلوں کی
جب سنائے8 اس کو ہماری باتیں کہے یہ نقلیں ہیں پہلوں کی
8:۔ ” اذا تتلی علیہ “ یہ شکوی ہے، جب ایسے ذمیم اور بہر بدی موصوف کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہہ دیتا ہے کچھ نہیں یہ تو محض گذشتہ لوگوں کے قصے کہانیاں ہی ہیں۔ ” سنسمہ علی الخرطوم “ ان بد قماشوں کے لیے وعید ہے دنیوی۔ یہ لوگ پیغمبر (علیہ السلام) کے اتباع سے ناک بھوں چڑھاتے اور آپ کی پیروی میں شرم و عار محسوس کرتے۔ اس لیے ہم دنیا ہی میں ان کو ذلیل و رسوا کر کے ان کی بڑائی خاک میں ملا دیں گے اس طرح یہ تذلیل و تحقیر سے کنایہ ہے۔ وقیل المعنی سنلحق بہ عار وسبۃ حتی یکون کمن وسم علی انفہ (قرطبی ج 18 ص 237) ۔ یا یہ وعید اخروی ہے یعنی جس ناک سے وہ پھوں پھوں کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ محمد ﷺ کی پیروی سے ناک کٹتی ہے قیامت کے دن ہم اس کی وہی ناک کاٹیں گے اور جہنم کی آگ میں اس کو داغ دیں گے۔ وقال بعض ھو فی الاخرۃ ومن القائلین بان ھذا وعید بامر یکون فیہا من قال ھو تعذیب بنار علی انفہ فی جھنم (روح ج 29 ص 29) ۔ تنبیہ : یہ آیتیں کسی مخصوص آدمی کے حق میں نہیں ہیں، بلکہ اس سے تمام وہ کفار مراد ہیں جو ان اوصاف سے متصف ہوں۔ شان نزول میں مخصوص شخص کے ذکر کا مطلب یہ ہے کہ وہ مخصوص فرد بھی اس میں شامل ہے، یہ مطلب نہیں کہ یہ آیتیں اس کے ساتھ مخصوص ہیں اور کسی اور کو شامل نہیں ہیں۔
Top