Kashf-ur-Rahman - Maryam : 72
ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْهَا جِثِیًّا
ثُمَّ : پھر نُنَجِّي : ہم نجات دینگے الَّذِيْنَ اتَّقَوْا : وہ جنہوں نے پرہیزگاری کی وَّنَذَرُ : اور ہم چھوڑ دینگے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع) فِيْهَا : اس میں جِثِيًّا : گھٹنوں کے بل گرے ہوئے
پھر ہم ان لوگوں کو جو خدا سے ڈرتے رہتے تھے اس جہنم سے نجات دے دیں گے۔ اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل گرا ہوا چھوڑ دیں گے۔
-72 پھر ہم ان لوگوں کو خدا سے ڈرتے رہتے تھے نجات دے دیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل گرا ہوا وندھا پڑا ہوا چھوڑ دیں گے۔ یعنی مومنین کا ملین کو تو پہلے ہی نجات مل جائے گی اور وہ سلامتی کے ساتھ گذر جائیں گے اور مومن گنہگار کچھ عرصہ کے بعد نجات حاصل کرلیں گے اور دین حق کے منکرین اس میں ہمیشہ کے لئے رہ جائیں گے اور گھٹنوں کے بل اوندھے گرپڑیں گے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں بہشت کو راہ نہیں مگر دوزخ کے منہ میں دوزخ تنور کی شکل ہے منہ اس کا دنیا سے بڑا کنارے سے کنارے تک راہ پڑی ہے بال برابر تیز جیسے تلوار کانپتی ایمان والے اس پر سلامت گذر جائیں گے اور گنہگار گرپڑیں گے پھر موافق عمل بعد کئی روز کے نکلیں گے شفاعت سے اور ارحم الراحمین کی مہر سے آخر جس نے کلمہ کہا ہے سچے دل سے سب نکلیں گے اور کافر رہ جائیں گے پھر اس کا منہ بند ہوگا۔ 12 خلاصہ ! یہ کہ کاملین مومنین تو گذر جائیں گے اور اعتصاۃ مومنین سزا بھگت کر یا شفاعت سے یا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے غرض ! جو سچے دل سے کلمہ پڑھنے والا ہے وہ آگے پیچھے نکل ہی جائے گا خواہ کچھ دنوں سزا بھگتنی پڑے۔ آخر میں صرف دین حق کے منکر ہی رہ جائیں گے اور ان پر دوزخ کا منہ بند کردیا جائے گا۔ اعاذ نا اللہ منھا۔
Top