Fi-Zilal-al-Quran - An-Najm : 29
فَاَعْرِضْ عَنْ مَّنْ تَوَلّٰى١ۙ۬ عَنْ ذِكْرِنَا وَ لَمْ یُرِدْ اِلَّا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَاؕ
فَاَعْرِضْ : تو اعراض برتیئے عَنْ مَّنْ تَوَلّٰى : اس سے جو منہ موڑے عَنْ ذِكْرِنَا : ہمارے ذکر سے وَلَمْ يُرِدْ : اور نہ چاہے وہ اِلَّا الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : مگر دنیا کی زندگی
پس اے نبی جو شخص ہمارے ذکر سے منہ پھیرتا ہے اور دنیا کی زندگی کے سوا جسے کچھ مطلوب نہیں ہے اسے اس کے حال پر چھوڑ دو ۔
فاعرض ............ بمن التقی (23) ک (35 : 92 تا 23) ” پس اے نبی جو شخص ہمارے ذکر سے منہ پھیرتا ہے اور دنیا کی زندگی کے سوا جسے کچھ مطلوب نہیں ہے اسے اس کے حال پر چھوڑ دو ۔ ان لوگوں کا مبلغ علم بس یہی کچھ ہے۔ یہ بات تیرا رب ہی زیادہ جانتا ہے کہ اس کے راستے سے کون بھٹک گیا ہے اور کون سیدھے راستے پر ہے اور زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا مالک اللہ ہی ہے۔ تاکہ اللہ برائی کرنے والوں کو ان کے عمل کا بدلہ دے اور ان لوگوں کو اچھی جزا سے نوازے جنہوں نے نیک رویہ اختیار کیا ہے جو بڑے بڑے گناہوں اور کھلے کھلے قبیح افعال سے پرہیز کرتے ہیں۔ الایہ کہ کچھ قصور ان سے سرزد ہوجائے۔ بلاشبہ تیرے رب کا دامن مغفرت بہت وسیع ہے۔ وہ تمہیں اس وقت سے خوب جانتا ہے جب اس نے زمین سے تمہیں پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹوں میں ابھی جنین ہی تھے ۔ پس اپنے نفس کی پاکی کے دعوے نہ کرو۔ وہی بہتر جانتا ہے کہ واقعی متقی کون ہے “۔ اعراض اور روگردانی کرنے کا حکم ان لورگوں کے لئے دیا گیا ہے جو اللہ کی یاد سے اعراض و روگردانی کرتے ہیں۔ آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور صرف حیات دنیا چاہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ سے کہا جاتا ہے کہ ان مشرکین کو چھوڑ دیں جن کے عقائد اور رویہ کا بیان اس سورة کے ابتدا میں ہوا اور جن کے اوہام و خرافات پر مبنی عقائد کا رد کیا گیا۔ رسول اللہ کے بعد یہ خطاب ہر مسلم داعی کو ہے جس کو اس قسم کے لوگوں سے واسطہ ہو جو اللہ کی یاد سے غافل ہوں جو اللہ اور آخرت پر ایمان نہ لاتے ہوں اور جن کا نقطہ نظر محض سیکولر ہو۔ دنیا سے آگے وہ دیکھنے والے ہی نہ ہوں۔ آخرت کا حساب و کتاب ان کی نظروں میں نہ ہو اور وہ دیکھتے ہوں کہ بس ان کا مقصد وجود صرف اس دنیا کی زندگی ہے۔” بابر بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نسبت “ اور وہ اس ۔۔۔۔ اپنی زندگی کو اسی انداز پر استوار کرتے ہوں وہ انسان کے شعور کو اس بات سے الگ کردیتے ہیں کہ ایک ایسا الہ بھی ہے جو لوگوں کے امور کا مدبر ہے اور یہ کہ وہ الہ اس دنیا کی مختصر زندگی کے بعد اعمال کا حساب و کتاب لے گا اور ہمارے دور میں مادیت اور الحاد کے پیروکار ایسے ہی لوگ ہیں۔ جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ ایسے لوگوں میں دلچسپی نہیں لے سکتے جو آخرت سے غافل ہیں اور نہ ایسے لوگوں کے ہمقدم زندگی بسر کرسکتے ہیں جو آخرت کے منکر ہیں کیونکہ دونوں قسم کے لوگوں کے منبع زندگی اس قدر متضاد ہوتے ہیں کہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ ایک قدم بھی نہیں چل سکتے کیونکہ زندگی کے نکات میں سے وہ باہم کسی نکتے پر بھی متفق نہیں ہوسکتے۔ ان کی زندگی کی قدریں اور پیمانے ہی الگ ہوتے ہیں۔ اہداف مختلف ہوتے ہیں ، تصورات مختلف ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بھی نہیں کرسکتے۔ وہ اس زمین پر ایک جگہ کوئی سرگرمی نہیں رکھ سکتے کیونکہ ان کی زندگی کے پیمانے ، قدریں اور مقاصد مختلف ہوتے ہیں۔ ان کی دوڑ دھوپ کا منہاج مختلف ہوگا اور غرض وغایت جدا ہوگی۔ جب دونوں کے درمیان کوئی یکسانیت اور یکجہتی نہیں ہے تو ایک دوسرے میں دلچسپی کیا ہوگی ؟ اگر کوئی مومن ایی سے لوگوں میں دلچسپی لیتا ہے جو اللہ کے ذکر سے منہ موڑتے ہیں اور سوائے حیات دنیا کے اور کچھ نہیں چاہتے تو وہ ایک سراسر ایک عبث کام کرتا ہے اور وہ بےمصرف اپنی قوت کو خرچ کررہا ہے۔ پھر اعراض اور روگردانی سے ایک اور غرض بھی ہے یہ کہ جو لوگ اللہ پر ایمان نہ لانے پر تلے ہوئے ہوں ان کو نظر انداز کرنا ، ان کو اہمیت نہ دینا بھی اپنی جگہ ایک مقصد ہے جو لوگ صرف دنیا کے بندے ہوں ان کو اس لئے نظر انداز کیا جاتا ہے کہ وہ ہیں ہی اس قابل کہ ان کو نظر انداز کیا جائے۔ وہ حق سے دور ہیں۔ حق کے ادراک کے اہل نہیں۔ یہ پردوں کے پیچھے کھڑے ہیں ان کے اور حقیقت کے درمیان حجاب ہے۔ یہ اس دنیا کے دائرے اور حدود سے باہر نکل نہیں سکتے۔
Top