Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 99
فَاُولٰٓئِكَ عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّعْفُوَ عَنْهُمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَفُوًّا غَفُوْرًا
فَاُولٰٓئِكَ : سو ایسے لوگ ہیں عَسَى : امید ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ يَّعْفُوَ : کہ معاف فرمائے عَنْھُمْ : ان سے (ان کو) وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَفُوًّا : معاف کرنیوالا غَفُوْرًا : بخشنے والا
تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسے معذوروں کو معاف فرما دے اور اللہ تعالیٰ بڑا معاف کرنے اور بہت بخشنے والا ہے2
2 لہٰذا ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے کچھ بعید نہیں کہ وہ ان سے در گزر فرمائے اور امید ہے کہ ان کو معاف کر دے اور اللہ بہت معاف کرنے والا بڑا بخشنے والا ہے (تیسیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یہ حال فرمایا ان کا جو کافروں کے ملک میں دل سے مسلمان ہیں اور ظاہر نہیں ہوسکتے ان کے ظلم سے تو اگر اپنی کمائی آپ کرتے ہیں اور سفر کی تدبیر سے واقف ہیں تو ان کا عذر قبول نہیں اور ملک میں جا رہیں۔ زمین اللہ کی کشادہ ہے اور اگر ناچار ہیں پرائے بس میں تو امید ہے معاف ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس ملک میں مسلمان کھلا نہ رہ سکے وہاں سے ہجرت فرض ہے ۔ (موضح القرآن) یہاں جن لوگوں کو مستثنیٰ فرمایا تھا ظاہر ہے کہ وہ گناہ گار نہ تھے پھر بھی ان کے لئے معافی کا اعلان فرمانا امر ہجرت کی تاکید ہے تاکہ یہ بات سمجھی جائے کہ جب معذورین کو بھی معافی کی ضرورت ہے تو غیر معذورین کا کیا حال ہوگا یا معافی سے ترک ہجرت کے گناہ ہونے پر اشارہ کرنا مقصود ہو اور یہ بتانا ہو کہ یہ فعل فی نفہ بہت برا ہے اگرچہ کسی کے حق میں اس کا گناہ لکھا نہ جائے اور اس کے حق میں یہ گناہ گناہ قرار نہ دیا جائے کہیں ن لکھنے سے اس کو تعبیر کیا جاتا ہے اور کہیں معافی سے اس کو تعبیر کیا جاتا ہے اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ ترک ہجرت حقیقتاً تو بہت بڑا گناہ ہے گو معذورین کے حق میں یہ گناہ گناہ نہیں ہے اور ان کے حق میں قابل عفو ہے۔ رہی یہ بات کہ عسی اللہ کیوں فرمایا۔ عسی تو ترجی کے لئے ہوتا ہے، جیسا کہ ہم نے ترجمہ میں اللہ سے کچھ بعید نہیں اور تیسیر میں امید ہے، لکھا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ عسی قرآن میں جہاں کہیں اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہے وہاں وہ وجوب اور یقین کے لئے ہوتا ہے ، دوسرا جواب یہ ہے کہ بادشاہوں کی اصطلاح میں امید کا کلمہ یقین کے طور پر عام لوگوں کے لئے ہوا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ تو ملک الملوک ہے اس کا عسی فرمانا یقین کے قائم مقام بالا ولیٰ ہونا چاہئے۔ (واللہ اعلم) آیت وجوب ہجرت پر دلالت کرتی ہے جیسا کہ حضرت شاہ صاحب نے فرمایا ہے اور ہجرت کی فضیلت میں بکثرت احادیث وارد ہیں اور سیاسی نقطہ نگاہ سے بھی ابتداء اسلام میں یہ چیز بہت ضروری تھی علاوہ اس کے کہ کفار مسلمانوں پر انواع و اقسام کے ظلم کرتے تھے ان کو زبردستی اپنی فوج میں شامل کر کے میدان جنگ میں بھی لے جاتے تھے اور جب وہ عذر کرتے تھے کہ ہم مسلمان ہیں مسلمانوں پر تلوار نہیں اٹھا سکتے تو ان سے کہتے تھے تم لڑنا نہیں مگر تم کو ہمارے ساتھ چلنا ہوگا اور اس ہمراہ لے جانے سے مقصد یہ ہوتا تھا کہ ہماری تعداد زیادہ معلوم ہوگی اور مسلمان مرعوب ہوں گے۔ اور اس ہمراہ لے جانے سے مقصد یہ ہوتا تھا کہ ہماری تعداد زیادہ معلوم ہوگی اور مسلمان مرعوب ہوں گے، اس لئے مسلمانوں پر ہجرت کو لازمی قرار دیا گیا کہ مسلمان دار الاسلام کی طرف چلے آئیں تاکہ مشرکین کی تعداد بڑھانے کا موجب نہ ہوں۔ اب آگے ہجرت کی اور ترغیب وتحریض مذکور ہے اور یہ بتانا مقصود ہے کہ جب ہجرت کے ارادے سے کوئی شخص نکل آئے تو راہ کے موانع اس کے اجر وثواب کو کم نہیں کرتے۔ جیسا کہ جندع بن خمرہ کا واقعہ روایات میں آتا ہے کہ وہ باوجود مریض ہونے اور بیمار ہونے کے نکل چلے اور چونکہ جندع بہت بوڑھے تھے اس لئے ان کو چار پائی پر ڈال کرلے چلے لیکن تنعیم تک پہنچے تھے کہ ان کا انتقال ہوگیا جب یہ خبر مدینہ پہنچی تو مسلمانوں نے کہا لودافی المدینۃ لکان اتم واردنی اجراً یعنی اگر مدینہ پہنچ جاتا تو مرنے والے کو پورا اجر وثواب ملتا اور مشرکین نے کہا۔ ماادرک ما طلب یعنی جو مطلوب تھا وہ کھو بیٹھا اور اس کو پانہ سکا یا اسی طرح کا واقعہ خمر بن جندب کا بیان کیا جاتا ہے کہ ان کا بھی راستے میں انتقال ہوگیا تھا یا خالد بن حرام کا واقعہ ہو کر وہ ہجرت کر کے حبشہ جا رہے تھے راستے میں ایک سانپ کے کاٹنے سے موت واقع ہوگئی بہرحال کسی ایک شخص کے ساتھ یا چند اشخاص کے ساتھ ایسا ہوا ہوگا کیونکہ موت کا وقت تو معین نہیں اور صد ہا آدمیوں نے ہجرت کی تھی اور بعض بھی ہوں گے جنہوں نے منزل مقصود پر پہنچنے سے قبل ہی داعی اجل کو لبیک کہا ہوگا چونکہ آیت مدنی ہے اس لئے بعض مفسرین نے خالد بن حرام کے واقعہ سے اس کے تعلق کا انکار کیا ہے لیکن شان نزول خواہ کسی کے حق میں ہو بہتر یہی ہے کہ اس کو عام رکھا جائے بہرحال جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے۔ آگے کی آیت کا مقصد ترغیب اور ثواب کی تکمیل ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top