Kashf-ur-Rahman - Al-Ghaafir : 74
مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا بَلْ لَّمْ نَكُنْ نَّدْعُوْا مِنْ قَبْلُ شَیْئًا١ؕ كَذٰلِكَ یُضِلُّ اللّٰهُ الْكٰفِرِیْنَ
مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے سوا قَالُوْا : وہ کہیں گے ضَلُّوْا : وہ گم ہوگئے عَنَّا : ہم سے بَلْ لَّمْ : بلکہ نہیں نَكُنْ نَّدْعُوْا : پکارتے تھے ہم مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل شَيْئًا ۭ : کوئی چیز كَذٰلِكَ : اسی طرح يُضِلُّ : گمراہ کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْكٰفِرِيْنَ : کافروں کو
وہ اب کہاں ہیں وہ جواب دیں گے کہ وہ تو سب ہم سے کہیں غائب ہوگئے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ہم تو اس علم سے پہلے کسی کو بھی نہیں پوجتے تھے اللہ تعالیٰ اسی طرح کافروں کو غلطی میں مبتلا رکھتا ہے۔
(74) وہ اب کہاں گئے وہ جواب دیں گے وہ تو سب ہم سے کہیں غائب ہوگئے اور ہماری نظر سے چوک گئے بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ ہم تو اس عالم سے پہلے کسی چیز کو پوجتے ہی نہ تھے اسی طرح اللہ تعالیٰ کافروں کو غلطی میں مبتلا رکھتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا شریک ٹھہراتے تھے وہ کہاں ہیں ان کو بلائو تاکہ تمہاری فریاد رسی کریں وہ ان کو کہیں ملیں گے نہیں پھر شرک سے ہی انکار کردیں گے۔ اسی کو فرمایا کہ جس طرح گمراہ کیا اللہ تعالیٰ نے اسی طرح تمام منکرین و معاندین کو گمراہ رکھتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اول منکر ہوچکے تھے کہ ہم نے شریک نہیں پکڑے اب گھبرا کر منہ سے نکل جائے گا پھر سنبھل کر انکار کریں گے تو وہ انکار اللہ نے بچلا دیا اس حکمت سے۔ خلاصہ : یہ ہے کہ کبھی کچھ کہیں گے اور کبھی کچھ بہکی باتیں کریں گے اور یہی اللہ تعالیٰ کا بچلانا اور گمراہ رکھنا دنیا میں رہ احق سے گمراہ رہے اور آخرت میں صحیح جواب نہ دے سکے۔
Top