Tafseer-e-Usmani - Al-Ghaafir : 74
مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا بَلْ لَّمْ نَكُنْ نَّدْعُوْا مِنْ قَبْلُ شَیْئًا١ؕ كَذٰلِكَ یُضِلُّ اللّٰهُ الْكٰفِرِیْنَ
مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے سوا قَالُوْا : وہ کہیں گے ضَلُّوْا : وہ گم ہوگئے عَنَّا : ہم سے بَلْ لَّمْ : بلکہ نہیں نَكُنْ نَّدْعُوْا : پکارتے تھے ہم مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل شَيْئًا ۭ : کوئی چیز كَذٰلِكَ : اسی طرح يُضِلُّ : گمراہ کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْكٰفِرِيْنَ : کافروں کو
اللہ کے سوا2 بولیں وہ ہم سے چوک گئے3 کوئی نہیں ہم تو پکارتے نہ تھے پہلے کسی چیز کو4 اسی طرح بچلاتا ہے اللہ منکروں کو5
2  یعنی اس وقت ان میں سے کوئی کام نہیں آتا۔ ہو سکے تو ان کو مدد کے لیے بلاؤ۔ 3  یعنی ہم سے گئے گزرے ہوئے۔ شاید اس وقت عابدین اور معبودین الگ الگ کردیے جائیں گے یا ضلوا عناکا مطلب یہ ہو کہ گو موجود ہیں، مگر جب ان سے کوئی فائدہ نہیں تو ہوئے نہ ہوئے برابر ہیں۔ 4  اکثر مفسرین نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ ہم جن کو دنیا میں پکارتے تھے، اب کھلا کہ وہ واقع میں کچھ چیز نہ تھے۔ گویا یہ بطور حسرت و افسوس کے اپنی غلطی کا اعتراف ہوگا۔ لیکن حضرت شاہ صاحب کے کلام کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین اول منکر ہوچکے تھے کہ ہم نے شریک ٹھہرائے ہی نہیں۔ اب گھبرا کر منہ سے نکل جائے گا ضلوا عنا جس میں شریک ٹھہرانے کا اعتراف ہوگا۔ پھر کچھ سنبھل کر انکار کردیں گے کہ ہم نے خدا کے سوا کسی کو پکارا ہی نہیں۔ 5  یعنی جس طرح یہاں انکار کرتے کرتے بچل گئے اور گھبرا کر اقرار کرلیا۔ یہ ہی حال ان کافروں کا دنیا میں تھا۔
Top