Anwar-ul-Bayan - Al-Ghaafir : 74
مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا بَلْ لَّمْ نَكُنْ نَّدْعُوْا مِنْ قَبْلُ شَیْئًا١ؕ كَذٰلِكَ یُضِلُّ اللّٰهُ الْكٰفِرِیْنَ
مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے سوا قَالُوْا : وہ کہیں گے ضَلُّوْا : وہ گم ہوگئے عَنَّا : ہم سے بَلْ لَّمْ : بلکہ نہیں نَكُنْ نَّدْعُوْا : پکارتے تھے ہم مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل شَيْئًا ۭ : کوئی چیز كَذٰلِكَ : اسی طرح يُضِلُّ : گمراہ کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْكٰفِرِيْنَ : کافروں کو
(یعنی) غیر خدا کہیں گے وہ تو ہم سے جاتے رہے بلکہ ہم تو پہلے کسی چیز کو پکارتے ہی نہیں تھے اسی طرح خدا کافروں کو گمراہ کرتا ہے
(40:74) ضلوا۔ ماضی جمع مذکر غائب ضلال وضلالۃ مصدر۔ (باب سمع و ضرب) کجراہ ہونا ۔ حق راستہ سے بھٹکنا ، دین سے پھرنا۔ راستہ کھونا۔ گم ہونا۔ کھو جانا۔ ضلواعنا وہ ہم سے کھو گئے۔ ہم کو ان سے جو امیدیں تھیں وہ پوری نہ ہوئیں۔ بل لم نکن تدعوا من قبل شیئا : بل حرف اضراب ہے۔ لم تکن تدعوا مضارع نفی جحد بلم جمع متکلم۔ ندعوا دعاء دعوۃ مصدر (باب نصر) سے ہم پکارتے نہ تھے یعنی ہم عبادت اور پوجا نہیں کرتے تھے۔ یہ مطلب نہیں کہ ہم دنیا میں شرک نہیں کرتے تھے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اب ہم پر یہ بات کھل گئی ہے کہ ہم جنہیں دنیا میں پکارتے تھے وہ کچھ بھی نہ تھے ہیچ تھے لاشئے تھے۔ (تفہیم القرآن) ای بل تبین لنا انا لم نکن نعبد شیئا بعبادتھم فانھم لیسوا شیئا یعتدبہ : بلکہ ہم پر یہ بات کھل گئی ہے کہ ہم جن کی عبادت کیا کرتے تھے ان میں کوئی حقیقت ہی نہ تھی کوئی شے بھی نہ تھے کہ جن پر اعتماد کیا جاسکے۔ (بیضاوی) اور بعض کے نزدیک کافروں کی طرف سے شرک کرنے کا ہی انکار ہے یعنی وہ کہیں گے ہم شرک کرتے ہی نہ تھے۔ ہم تو کسی کو بھی پکارا نہ کرتے تھے۔ جس طرح کوئی شخص برا کام کرے اور سزا کے وقت انکار کر دے کہ میں نے تو کچھ بھی نہ کیا تاکہ سزا نہ ہو (حقانی) جیسا کہ اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے :۔ ثم لم تکن فتنتھم الا ان قالوا واللّٰہ ربنا ما کنا مشرکین (6:23) تو ان سے کچھ عذر نہ بن پڑے گا بجز اس کے کہ کہیں : خدا کی قسم جو ہمارا پروردگار ہے ہم شرک نہیں بناتے تھے (کسی اور کو اللہ کا شریک نہ ٹھہراتے تھے) کذلک : کاف اول حرف تشبیہ ہے ذا اسم اشارہ (یہ ۔ اس) ل علامت اشارہ بعید۔ کاف آخر حرف خطاب (واحد مذکرکے لئے) کذلک سے اشارہ مذکورہ سابق کی طرف ہے۔ جس کا ترجمہ ہے : ایسے ہی۔ اسی کی طرح۔ اسی طرح۔ یضل اللّٰہ۔ اضل یضل اضلال (افعال) مصدر سے مضارع کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ وہ گمراہ کرتا ہے ۔ وہ گمراہ چھوڑ دیتا ہے۔ کذلک یضل اللّٰہ الکفرین : اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) کافروں کو مذکورہ سابق مشرکوں سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جیسے ان مشرکوں کو (جن کا ذکر اوپر آیا ہے) اللہ تعالیٰ نے گم کردہ راہ بنادیا۔ اسی طرح اللہ سب کافروں کو (بوجہ ان کے متواتر اعمال بد یا گناہ و شرک پر مستقل اصرار کے) گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے۔ (2) کافرین سے مراد یہاں وہی مشرکین ہیں جو اوپر مذکور ہیں اور جملہ کا مطلب ہے :۔ یہ ہے کافروں یا مشرکوں کا مآل کہ وہ بےحقیقت اور قدرت سے یکسر معتری چیزوں کو خدا کا شریک بنا کر دنیا میں پوجتے رہے اور قیامت میں وہ ان کی کوئی بھی امداد نہ کرسکے۔ اللہ تعالیٰ نے یوں ہی ان کو اس گمراہی میں دنیا میں چھوڑے رکھا (کیونکہ وہ شرک کو چھورنے پر تیار نہ ہوئے) عبد اللہ یوسف علی۔
Top