Ashraf-ul-Hawashi - An-Nahl : 2
اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْهُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ١ؔؕ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیْنٌ
اَكَانَ : کیا ہوا لِلنَّاسِ : لوگوں کو عَجَبًا : تعجب اَنْ : کہ اَوْحَيْنَآ : ہم نے وحی بھیجی اِلٰى : طرف۔ پر رَجُلٍ : ایک آدمی مِّنْھُمْ : ان سے اَنْ : کہ اَنْذِرِ : وہ ڈراتے النَّاسَ : لوگ وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اَنَّ : کہ لَھُمْ : ان کے لیے قَدَمَ : پایہ صِدْقٍ : سچا عِنْدَ : پاس رَبِّهِمْ : ان کا رب قَالَ : بولے الْكٰفِرُوْنَ : کافر (جمع) اِنَّ : بیشک ھٰذَا : یہ لَسٰحِرٌ مُّبِيْنٌ : کھلا جادوگر
کیا لوگوں (کافروں) کو اس بات سے تعجب ہوا کہ ہم نے انہی میں سے (یعنے آدمیوں میں سے ایک مرد کی طرف وحی بھیجی کہ لوگوں کو (خدا کے عذاب سے) ڈرا13 اور ایمان والوں کو خوش خبری سنا کہ ان کو ان کے مالک کے پاس سچائی کا مرتبہ ملے گا14 کافروں نے کہا (اے پیغمبر) کھلا جادو گر ہے (یا یہ قرآن کھلا جادو ہے)1
13۔ یعنی آخر اس میں تعجب اور حیرت کی کون سی بات ہے کہ انسانوں کو خدا کے عذاب سے ڈرانے اور فلاح وسعادت کی راہ دکھانے کے لئے خود انہی میں سے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا دیا گیا ؟ تعجب کی بات تو جب ہوتی کہ ان کا پروردگار ہدایت کا کوئی سامان نہ کرتا اور یا ان میں کسی جن یا فرشتے کو رسول بنا کر بھیجا دیتا کیونکہ فرشتہ یا جن انسانوں کے لئے ” اسوہ حسنہ “ نہیں بن سکتا۔ (از قرطبی وابن کثیر) ۔ 14۔ یا سچائی کا مقام یعنی جنت۔ علما نے لکھا ہے کہ ” قدم “ کا لفظ سعی و عمل سے کنایہ ہوتا ہے لہذا ” قدم صدق “ سے مراد نیک اعمال ہیں اور مطلب یہ ہے کہ انہیں ان کے نیک اعمال کا اللہ تعالیٰ کے ہاں سے بدلہ ملے گا۔ (قرطبی) 1۔ اور یہ کہنے میں کافر سراسر جھوٹے تھے اس لئے قرآن نے اس کا جواب نہیں دیا۔ (کبیر) ۔
Top