Urwatul-Wusqaa - Yunus : 2
اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْهُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ١ؔؕ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیْنٌ
اَكَانَ : کیا ہوا لِلنَّاسِ : لوگوں کو عَجَبًا : تعجب اَنْ : کہ اَوْحَيْنَآ : ہم نے وحی بھیجی اِلٰى : طرف۔ پر رَجُلٍ : ایک آدمی مِّنْھُمْ : ان سے اَنْ : کہ اَنْذِرِ : وہ ڈراتے النَّاسَ : لوگ وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اَنَّ : کہ لَھُمْ : ان کے لیے قَدَمَ : پایہ صِدْقٍ : سچا عِنْدَ : پاس رَبِّهِمْ : ان کا رب قَالَ : بولے الْكٰفِرُوْنَ : کافر (جمع) اِنَّ : بیشک ھٰذَا : یہ لَسٰحِرٌ مُّبِيْنٌ : کھلا جادوگر
کیا لوگوں کو اس بات پر اچنبھا ہوا کہ انہیں میں سے ایک آدمی پر ہم نے وحی بھیجی ؟ اس بات کی وحی کہ لوگوں کو خبردار کر دے اور ایمان والوں کو خوشخبری دے دے کہ پروردگار کے حضور ان کیلئے اچھا مقام ہے ؟ کافروں نے کہا بلاشبہ یہ شخص جادوگر ہے کھلا جادوگر
مشرکین یک ایک شبہ اور اعتراض کا صاف صاف جواب 2 ؎ مشرکین مکہ کا ایک شبہ یا اعتراض تھا کہ کوئی ” بشر “ رسول نہیں ہو سکتا اس لئے جس کو وہ ” بشر “ یعنی انسان دیکھتے تھے یا سنتے تھے اس کو رسول ماننے کیلئے تیار نہیں ہوتے تھے یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد جتنے رسول آئے کسی ایک کی نبوت و رسالت کو بھی تسلیم نہ کیا ۔ ان کے خیال میں کوئی فرشتہ ہی رسول ہو سکتا تھا۔ چناچہ ان کے اس لغو خیال کا جواب قرآن کریم نے مختلف عنوانات سے دیا ہے اور ہر ممکن ان کی تفہیم کرانے کی پوری پوری کوشش کی ہے ۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ : وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَائَ ہُمُ الْہُدٰٓی اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللہ ُ بَشَرًا رَّسُوْلًا قُلْ لَّوْ کَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓئِکَۃٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْہِمْ مِّنَ السَّمَآئِ مَلَکًا رَّسُوْلًا (بنی اسرائیل 17 : 94 ، 95) ” اور حقیقت یہ ہے کہ جب کبھی اللہ کی ہدایت ظاہر ہوئی تو صرف اس بات نے لوگوں کو ایمان لانے سے روکا کہ متعجب ہو کر کہنے لگے ” کیا اللہ نے ایک آدمی کو پیغمبر بنا کر بھیج دیا ہے “ ۔ اے پیغمبر اسلام ! آپ کہہ دیجئے اگر ایسا ہوتا کہ زمین میں ( انسانوں کی جگہ) فرشتے بستے ہوتے اور اطمینان سے چلتے پھرتے تو ہم ضرور آسمان سے ایک فرشتہ پیغمبر بنا کر اتار دیتے “۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور اگر ہم کسی فرشتے کو پیغمبر کرتے تو اسے بھی انسان ہی بناتے اور جیسے کچھ شبہات یہ لوگ اب کر رہے ہیں ویسے ہی شبہوں میں اس وقت بھی انہیں ڈال دیتے “ ۔ ( سورة الانعام 6 : 9) کیونکہ دنیا میں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ فرشتے اتر کر انسانوں کے سامنے چلنے پھرنے لگیں ۔ یہاں اگر فرشتے بھی آئیں گے تو انسان ہی ہوں گے ۔ پھر ان لوگوں کا شبہ کیونکر دور ہوگا کیونکہ وہ دیکھنے میں تو ان ہی جیسا انسان ہوگا ۔ رہا فرشتہ تو وہ کوئی ایسا وجود تو نہیں رکھتا جس کو یہ لوگ دیکھ سکیں ۔ زیر نظر آیت میں اس مضمون کو ایک دوسرے اندازے سے سمجھانے کی کوشش کی گئی اور فرمایا گیا کہ کیا لوگوں کو اس بات پر اچنبھا ہوا کہ انہی میں سے ایک آدمی پر ہم نے وحی بھیجی ؟ اس بات کی وحی کہ لوگوں کو انکار و بد عملی کے نتائج سے خبر دار کر دے اور ایمان والوں کو خوشخبری دے دے کہ پروردگار کے حضور ان کیلئے اچھا مقام ہے۔ اس وقت جن ” لوگوں کو بشر “ کے رسول ہونے پر تعجب تھا وہ کون تھے ؟ جواب بالکل واضح اور صاف ہے کہ وہ مشرک تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ اللہ کبھی کسی ” بشر “ کو رسول نہیں بناتا ۔ لیکن آج جن لوگوں کو تعجب ہے وہ کون ہوئے ؟ اس کا فیصلہ خود کرلو ۔ ہاں ! ہمیں یہ معلوم ہے کہ ایسا کہنے والے کہتے ضرور ہیں ۔ چنانچہ ایک جگہ تحریر ہے کہ : ” مسئلہ اس سے معلوم ہوا کہ کسی کو ” بشر ‘ ‘ کہنے میں اس کے فضائل و کمالات کے انکار کا پہلو رکھتا ہے ۔ اس لئے قرآن کریم میں جا بجا انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ” بشر “ کہنے والوں کو کافر فرمایا گیا ہے اور در حقیقت انبیاء (علیہ السلام) کی شان میں ایسا لفظ ادب سے دور اور کفار کا دستور ہے “۔ ( القرآن الحکیم ترجمہ احمد رضا خاں تفسیر سید محمد نعیم الدین ص 5) ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ” رسول اللہ ﷺ کو ” بشر “ کہنا کفار کا مقولہ ہے۔ ( فتویٰ رضویہ ج 2 ص 143 ، مواعظ نعیمیہ ص 115) ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ : ” فرشتے آپ ہی کے نور سے پیدا ہوئے ہیں ( صلوٰۃ الصفا مجموعہ رسائل ج 1 ص 37) ایک جگہ رقم طراز ہیں کہ جو آپ ﷺ کے نور ہونے کی کیفیت اللہ تعالیٰ نے بیان نہیں فرمائی اور نہ ہی سمجھ سکتے ہیں بغیر سچے سمجھے اس پر ایمان لانا فرض ہے “۔ ( من ہو احمد رضا ، شجاعت علی ص 39) لیکن اس تعجب پر مزید تعجب دیکھئے کہ ایک جگہ قرآن کریم کی تفسیر ( سورة الحج 22 : 75) میں فرماتے ہیں کہ : ” یہ آیت ان کفار کے رد میں نازل ہوئی جنہوں نے ” بشر “ کے رسول ہونے کا انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ ” بشر “ کیسے رسول ہو سکتا ہے ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ اللہ مالک ہے جسے چاہے اپنا رسول بنائے وہ انسانوں سے بھی رسول بناتا ہے اور ملائکہ میں سے بھی جنہیں چاہے “۔ ( ترجمہ احمد رضا خاں تفسیر سید محمد نعیم الدین ص 493) مزید تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : فرشتوں میں سے رسول مثل جبریل (علیہ السلام) و میکائل (علیہ السلام) وغیرہ۔ آدمیوں میں سے رسول مثل حضرت ابراہیم و حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ و حضرت سید عالم صلوٰۃ اللہ تعالیٰ علیہم وسلامہ ۔ اب دونوں عبارتوں کو ذرا قریب قریب کر کے دیکھ لو ایک ترجمہ کے ص 3 سے اور دوسری ترجمہ کے ص 493 سے : ارشاد اول : قرآن پاک میں جا بجا انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ” بشر “ کہنے والوں کو ” کافر “ فرمایا گیا ہے۔ ص 3۔ ارشاد دوم : یہ آیت ان ” کفار “ کے رد میں نازل ہوئی جنہوں نے ” بشر “ کے رسول ہونے کا انکار کیا تھا۔ (ص 493) ہم نے دونوں عبارتیں آپ کو قریب قریب کردی ہیں اس لئے کہ ہمارے عوام تو عوام خاص کا حافظہ بھی بڑا کمزور ہے ۔ اب غور و فکر کر کے یہ بتا دیں کہ کیا دونوں عبارتوں کا مطلب و مفہوم ایک ہی ہے یا الگ الگ ایک ہے تو کیسے ؟ اور الگ الگ ہے تو کیا ؟ اس جگہ سورة یونس کی آیت 2 میں کفار کے اس شبہ کا ازالہ کیا جا رہا ہے ۔ انہیں یہ بات سمجھ میں نہ آتی تھی کہ ایک ’ ’ بشر “ یعنی انسان کس طرح اللہ تعالیٰ کے اتنا قریب ہو سکتا ہے کہ وہ اسے وحی سے سرفراز فرما کر دوسرے انسانوں کی رہبری کیلئے متعین فرمائے ۔ جس انسان سے وہ متعارف تھے اور جس انسانیت کے وہ خود اعلیٰ نمائندہ تھے وہ تو اس سرفرازی کا قطعاً مستحق نہ تھا لیکن انہیں معلوم نہ تھا کہ یہ ” انسان “ خالق کائنات کی تخلیق کا شاہکار ہے ۔ اس میں جو صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں اگر ان کو بروئے کار لایاجائے اور تقویٰ و اخلاص سے ان کی آبیاری کی جائے تو بارگاہ عزت میں جس مقام قرب کا یہ مستحق قرار پا سکتا ہے وہاں روح الامین کو بھی دم مارنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ مشرکین مکہ کے ایک تعجب کا جواب تو اس جگہ دیا گیا لیکن ان کو ایک تعجب اور بھی تھا جو اس پہلے تعجب کے بعد پیدا ہوا اور اس کا جواب بھی ان کو دیا گیا ۔ ان کا دوسرا تعجب اس طرح کا تھا کہ ” کہتے تھے ، یہ قرآن دونوں شہروں کے بڑے آدمیوں میں سے کسی پر کیوں نہ نازل کیا گیا ؟ “ ( الزخرف 43 : 31) ان کے دونوں شہروں سے مراد مکہ اور طائف ہیں ۔ کفار و مشرکین کا کہنا یہ تھا کہ اگر واقعی اللہ کو کوئی رسول بھیجنا ہوتا اور وہ اس پر اپنی کتاب نازل کرنے کا ارادہ کرتا تو ہمارے ان مرکزی شہروں میں سے کسی بڑے آدمی کو اس غرض کیلئے منتخب کرتا ۔ رسول بنانے کیلئے اللہ کو ملا بھی تو وہ شخص جو بےباپ پیدا ہوا ، جس کے حصے میں کوئی میراث نہ آئی ، جس کا بچپن بکریاں چراتے گزر گیا اور جوانی آئی تو گزر اوقات کیلئے بیوی کے مال کو مال تجارت بنایا ، جو کسی قبیلے کا بڑا شیخ یا خانوادہ کا سربراہ نہیں ہے ۔ کیا مکہ میں ولید بن مغیرہ اور عتبہ بن ربیع جیسے نامی گرامی سردار موجود نہ تھے ؟ کیا طائف میں عروہ بن مسعود ، حبیب بن عمرو ، کنانہ بن عمرو اور ابن عبدیا لیل جیسے رئیس اعظم موجودہ نہ تھے ؟ کیا طائف میں عروہ بن مسعود ، حبیب بن عمرو ، کنانہ بن عمرو اور ابن عبد یا لیل جیسے رئیس اعظم موجود نہ تھے ؟ یہ تھا ان لوگوں کا استدلال ۔ پہلے تو وہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ کوئی بشر بھی رسول ہو سکتا ہے مگر جب قرآن کریم میں پے در پے دلائل دے کر ان کے اس خیال کا پوری طرح ابطلال کردیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ اس سے پہلے ہمیشہ بشر ہی رسول بن کر آتے رہے ہیں اور انسانوں کو ہدایت کیلئے بشر ہی رسول ہو سکتا ہے نہ کہ غیر بشر اور جو رسول بھی دنا میں آئے ہیں وہ یکا یک آسمان سے نہیں اتر آئے تھے بلکہ انہی انسانی بستیوں میں پیدا ہوئے تھے ۔ بازاروں میں چلتے پھرتے تھے ، بال بچوں والے تھے اور کھاتے پیتے تھے تو اس وقت انہوں نے یہ دوسرا پینترا بدلا کہ اچھا بشر ہی رسول سہی مگر وہ کوئی ہونا چاہئے تھا جو مال دار اور با اثر ہوتا اور بڑے جتھے والا ہوتا ، لوگوں میں اس کی شخصیت کی دھاک بیٹھی ہوتی ، محمد بن عبد اللہ اس مرتبے کیلئے کیسے موزوں ہو سکتا ہے ؟ یہ کفار مکہ کا دوسرا اعتراض تھا جو سورة الزخرف میں بیان ہوا ہے اس کو آج کل ہماری زبان میں کہا جاتا ہے کہ چھوٹا منہ اور بڑی بات ۔ ان کے خیال میں کیا تھا ؟ یہی کہ رسول کا ہونا اور قرآن کریم کا اترنا ایک بہت بڑی بات ہے اور بڑی بات تو بڑے ہی لوگوں کی ہوتی ہے ۔ ان کے ذہن میں بڑے بڑے لوگوں کا تصور جو یہی تھا اسی کے پیش نظر ان کا اعتراض تھا لیکن تعجب ہے کہ آج بھی لوگوں کی سوچ کوئی مختلف نہیں بلکہ وہی جو اس وقت تھی ، فرق صرف یہ ہے کہ وہ یہ سوچ رکھ کر مشرک و کافر کہلاتے اور آج کل اسی طرح کی سوچ رکھنے والے بڑے زیرک زمرہ علماء کرام کے لوگ اور مذہبی گروہ بندیوں کے قائدین ہیں وہ جب یہ دیکھتے ہیں کہ یہ کام تو بہت بڑا ہے اور کرنے والا بالکل چھوٹا کیوں ؟ اس لئے کہ وہ زمرہ علماء اور مذہبی رہنمائوں اور قائدین میں کبھی شمار نہیں آتا تو وہ بڑے تعجب کے ساتھ منہ بسورتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ وہ آدمی اس کام کے لائق کب ہے ؟ وہ تو ایک رذیل آدمی ہے اس میں تو کوئی علم نام کی چیز موجود ہی نہیں ، وہ تو کچھ پڑھا ہی نہیں ، وہ تو ایک جاہل اور ناسمجھ ہے ، وہ یہ کام کر رہا ہے ؟ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ ۔ یہ تفسیر جو آپ کے ہاتھوں میں ہے اس کے مولف پر بھی یہی اعتراضات ہیں جو کئے جا رہے ہیں کہ وہ بندہ دیکھو ، اس کا شہر دیکھو ، اس کی جماعت دیکھو ، بھلا وہ کیا لکھے گا جس کو کتاب کا نام رکھنا بھی نہیں آتا یہ ” عروۃ الوثقیٰ “ کا نام ہی غلط ہے پھر اسکے اندر جو تحریر ہے سبحان اللہ ! اس کو کہتے ہیں کہ ” نہ مونہہ نہ متھا تے جن پہاڑوں لتھا “ بھلا یہ کام اس کے کرنے کا تھا ؟ مشرکین مکہ کے دوسرے تعجب کا جواب بھی ان کو دیا گیا ، چناچہ ارشاد ہوا کہ : ” کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں ؟ دنیا کی زندگی میں ان کی گزر بسر کے ذرائع تو ہم نے ان کے درمیان تقسیم کئے ہیں اور ان میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں پر ہم نے بد رجہا فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں اور تیرے رب کی رحمت اس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جو ان کے رئیس سمیٹ رہے ہیں “۔ (الزخرف 43 : 32) غور کرو کہ ان کے اس تعجب بھرے اعتراض کا جواب کس انداز میں دیا ہے اور مختصر الفاظ میں تین اہم باتیں ارشاد فرما دی ہیں جن میں سے کسی ایک کا جواب بھی انکے پاس موجود نہیں ہے۔ 1۔ یہ کہ تیرے رب کی رحمت تقسیم کرنا ان کے سپرد کب سے ہوگیا ؟ کیا یہ طے کرنا ان کا کام ہے کہ اللہ اپنی رحمت سے کس کو نوازے ؟ خیال رہے کہ اس جگہ رب کی رحمت سے مراد وہ عام رحمت ہے جس میں ہر ایک کو کچھ نہ کچھ حصہ ملتا رہتا ہے۔ 2۔ یہ کہ نبوت تو خیر بہت بڑی چیز ہے دنیا میں زندگی بسر کرنے کے جو عام ذرائع ہیں ان کی تقسیم بھی ہم نے اپنے ہی ہاتھ میں رکھی ہے کسی اور کے حوالے نہیں کردی ۔ ہم کسی کو حسین اور کسی کو بد صورت ، کسی کو خوش آواز اور کسی کو بد آواز ، کسی کو قومی ہیکل اور کسی کو کمزور ، کسی کو ذہین اور کسی کو کند ذہن ، کسی کو قوی الحافظہ اور کسی کو نسیان میں مبتلا ، کسی کو سلیم الاعضاء اور کسی کو اپاہج یا اندھا ، لنگڑا ، گونگا اور بہرہ ، کسی کو امیر زادہ اور کسی کو فقیر زادہ پیدا کرتے ہیں ۔ اس پیدائشی قسمت میں کوئی ذرہ برابر بھی داخل نہیں دے سکتا ۔ جس کو جو کچھ ہم نے بنا دیا ہے وہی کچھ بننے پر وہ مجبور ہے اور ان مختلف پیدائشی حالتوں کا جو اثر بھی کسی کی تقدیر پر پڑتا ہے اسے بدل دینا کسی کے بس میں نہیں ہے پھر انسانوں کے درمیان رزق ، طاقت ، عزت ، دولت اور حکومت وغیرہ کی تقسیم بھی ہم ہی کر رہے ہیں جس کو ہماری طرف سے اقبال نصیب ہوتا ہے اسے کوئی گرا نہیں سکتا اور جس پر ہماری طرف سے اوبار آجاتا ہے اسے گرنے سے کوئی بچا نہیں سکتا ۔ ہمارے فیصلوں کے مقابلے میں انسانوں کی ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں ۔ اس عالمگیر الٰہی انتظام میں یہ لوگ کہاں فیصلہ کرنے چلے ہیں کہ کائنات کا مالک کسے اپنا رسول بنائے اور کسے نہ بنائے ؟ 3۔ یہ کہ اس الٰہی انتظام میں یہ مستقل قاعدہ ملحوظ رکھا گیا ہے کہ سب کچھ ایک ہی کو یا سب کچھ سب کو نہ دے دیا جائے ۔ آنکھیں کھول کر دیکھو ، ہر طرف تمہیں بندوں کے درمیان ہر پہلو میں تفاوت ہی تفاوت نظر آئے گی ۔ کسی کو ہم نے کوئی چیز دی ہے تو دوسری کسی چیز سے اس کو محروم کردیا ہے اور وہ کسی اور کو عطا کردی ہے ۔ یہ اسی حکمت کی بناء پر کیا گیا ہے کہ کوئی انسان دوسرے سے بےنیاز نہ ہو بلکہ ہر ایک کسی نہ کسی معاملہ میں دوسرے کا محتاج رہے ۔ اب یہ کیسا احمقانہ خیال تمہارے خیال میں سمایا ہے کہ جسے ہم نے ریاست اور وجاہت دی ہے اس کو نبوت بھی دے دی جائے ؟ کیا اس طرح تم بھی یہ کہو گے کہ عقل ، علم ، دولت ، حسن ، طاقت ، اقتدار اور دوسرے تمام کمالات ایک ہی میں جمع کردیئے جائیں اور جس کو ایک چیز نہیں ملی ہے اسے دوسری بھی کوئی چیز نہ دی جائے ؟ منکرین اسلام پیغمبر اسلام ﷺ جادوگر کا خطاب کیوں دیتے تھے ؟ 3 ؎ منکرین حق ایک طرف تو وحی و نبوت سے انکار کرتے تھے اور دوسری طرف یہ بھی دیکھتے تھے کہ یہ آدمی دوسرے آدمیوں کی طرح نہیں ہے اور اس طرح ان کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا تو کہتے تھے کہ آخر کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے پھر جب ان سے اس کی کوئی توجہہ نہ بن پڑتی تو کہتے کہ ہو نہ ہو یہ جادوگری ہے ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ جب ان کے پاس کوئی دلیل نہ رہی جس سے وہ قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے کا انکار کرسکیں اور نبی اعظم و آخر ﷺ کی نبوت و رسالت کی تردید کرسکیں تو نا چار اپنی شکست پر پردہ ڈالنے کیلئے یہ افتراء باندھ دیا کہ یہ عقل و ودل اور نگاہ و بصارت کو خیرہ کردینے والی روشنی ، یہ روح کو سر شار کردینے والا کلام جادو ہے اور اس کو سنانے والا یہ دل نواز شخصیت نبی نہیں بلکہ کوئی جادوگر ہے ۔ غور کرو کہ کفر کے کفر کے ساتھ کسی طرح ڈانڈے ملتے ہیں ۔ فرعون نے بھی تو اعجاز موسویٰ کے سامنے اپنی بےبسی پر یہہ کہہ کر پردہ ڈالا تھا۔ شاید کفر کے پاس یہی اوچھا ہتھیار ہے جو وہ اہل حق کے خلاف ہمیشہ استعمال کرتا ہے۔ مشرکین نے نبی رحمت ﷺ کو جادوگرتو کہہ دیا لیکن انہوں نے یہ نہ سوچا کہ ان کا یہ الزام کتنا بےسروپا ہے ، کیا وہ یہ بتا سکتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے فلاں جادوگر سے یہ جادو سیکھا ؟ کیا وہ یہ بتا سکتے ہیں کہ جادوگروں کی پست اور رذیل ذہنیت اور ان کے رذیل اعمال کی کوئی اذنیٰ بھی علامت یہاں موجود ہے ؟ جادوگروں کے سامنے ان کے ذاتی حقیر مفادات ہوتے ہیں اور انہیں کی تکمیل کیلئے وہ سارے پاپڑ بیلتے ہیں لیکن اس پاک ہستی کی کتاب زندگی میں خود غرضی ، جاہ طلبی اور دولت کے جمع کرنے کا کوئی ادنیٰ سا ثابت بھی تو نہیں ملتا ۔ پھر فکر و عمل کے اس قدر واضح ثبوت دیکھنے کے باوجود نبی اعظم و آخر ﷺ فداہ ابی و امی کو جادوگر کہنا افتراء محض اور صریح بہتان تراشی نہیں تو اور کیا ہے ؟
Top