Jawahir-ul-Quran - Yunus : 2
اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْهُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ١ؔؕ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیْنٌ
اَكَانَ : کیا ہوا لِلنَّاسِ : لوگوں کو عَجَبًا : تعجب اَنْ : کہ اَوْحَيْنَآ : ہم نے وحی بھیجی اِلٰى : طرف۔ پر رَجُلٍ : ایک آدمی مِّنْھُمْ : ان سے اَنْ : کہ اَنْذِرِ : وہ ڈراتے النَّاسَ : لوگ وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اَنَّ : کہ لَھُمْ : ان کے لیے قَدَمَ : پایہ صِدْقٍ : سچا عِنْدَ : پاس رَبِّهِمْ : ان کا رب قَالَ : بولے الْكٰفِرُوْنَ : کافر (جمع) اِنَّ : بیشک ھٰذَا : یہ لَسٰحِرٌ مُّبِيْنٌ : کھلا جادوگر
کیا لوگوں کو4 تعجب ہوا کہ وحی بھیجی ہم نے ایک مرد پر ان میں سے یہ کہ ڈر سنادے5 لوگوں کو اور خوشخبری سنا دے ایمان والوں کو کہ ان کے لیے پایہ سچا ہے اپنے رب کے یہاں کہنے لگے منکر6 بیشک یہ تو جادوگر ہے صریح
4:“ اَکَانَ لِلنَّاسِ الخ ” یہ زجر ہے اور ہمزہ استفہام انکاری کے لیے ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو رسالت و نبوت سے سرفراز فرمایا تو مشرکین عرب نے اس پر تعجب کیا کہ اللہ تعالیٰ تو بڑی بلند وبالا شان کا ملک ہے اس لیے اس کا رسول بشر کیونکر ہوسکتا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ “ قَالوا اللہ اعظم من ان یکون رسوله بشرا فانزل اللہ تعالیٰ (اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا) استفہام انکار للتعجب ” (خازن و معالم ج 3 ص 173 و مظھری ج 5 ص 4) ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کے اس تعجب پر انکار فرمایا کیونکہ تمام انبیاء سابقین بھی بشر ہی تھے اس لیے آخری رسول کا بشر ہونا بھی کوئی انوکھی اور تعجب کی بات نہیں۔ “ وکل واحد من ھذه الامور لیس یعجب لان الرسل المبعوثین الی الامم لم یکونوا الا بشرا مثلھم ” (مدارک ج 2 ص 117) ۔ ٖف 5:“ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ ” یہ تخویف اخروی ہے اور “ وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا الخ ” بشارت اخروی ہے۔ “ اَنَّ لَھُمْ اي بان لھم ” حرف جار مقدر ہے “ قَدَمَ صِدْقٍ ” وہ اعمال صالحہ جو وہ پہلے بھیج چکے ہیں، یا اس سے مراد بہت اونچا مقام اور بلند رتبہ ہے جس پر وہ فائز ہوں گے۔ “ قال مجاھد الاعمال الصالحة التی قدموھا ” (ابن کثیر ج 2 ص 406 و خازن ج 3 ص 173) و قال عطاء اي مقام صدق لا زوال له ولا بؤس فیه یعنی منزلة رفیعة یسبقون الیھا و یقیمون فیھا ” (مظہری ج 5 ص 5) ۔ 6:“ قَالَ الْکٰفِرُوْنَ ” یہ شکویٰ ہے۔ “ ھٰذَا ” سے آنحضرت ﷺ کی طرف اشارہ ہے۔ مشرکین مکہ نے جب حضور ﷺ سے کئی خارقِ عادت امور دیکھے اور آپ کی زبان مبارک سے کلام مجید سنا تو آپ کو جادوگر کہنا شروع کردیا حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ حضور ﷺ ہرگز جادوگر نہیں ہیں مگر اس کے باوجود وہ آپ پر یہ جھوٹا الزام لگاتے تھے۔ یہ ان کے عجز کی واضح دلیل ہے۔ جب ایک شخص اپنے مدّ مقابل کی باتوں کا کوئی معقول جواب دینے سے عاجز ہوجاتا ہے تو اپنی کفت مٹانے اور رسوائی چھپانے کے لیے اوچھے ہتھیاروں پر اتر آتا ہے یہی حال مشرکین مکہ کا تھا کہ وہ قرآن کا مثل پیش کرنے سے تو عاجز ہوگئے مگرحضور ﷺ کو (عیاذًا باللہ) جادوگر کہنے لگے۔ “ و ھو دلیل عجزھم واعترافھم به وان کانوا کاذبین فی تسمیته سحرًا ” (مدارک ج 2 ص 117) یعنی یہ کلام تو جادو ہے اس لیے ہم اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہیں۔
Top