Maarif-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 21
وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ١ؕ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ
وَفِيْٓ : اور میں اَنْفُسِكُمْ ۭ : تمہاری ذات اَفَلَا : تو کیا نہیں تُبْصِرُوْنَ : تم دیکھتے
اور خود تمہارے اندر سو کیا تم کو سوجھتا نہیں
(آیت) وَفِيْٓ اَنْفُسِكُمْ ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ ، اس جگہ آیات قدرت کے بیان میں آسمان اور فضائی مخلوقات کا ذکر چھوڑ کر صرف زمین کا ذکر فرمایا ہے جو انسان کے بہت قریب ہے، جس پر انسان بستا اور چلتا پھرتا ہے، اس آیت میں اس سے بھی زیادہ قریب یعنی خود انسان کی ذات کی طرف توجہ دلائی کہ زمین اور زمین کی مخلوقات کو بھی چھوڑو خود اپنے وجود اپنے جسم اور اس کے اعضاء وجوارح ہی میں غور کرلو تو ایک ایک عضو کو حکمت حق تعالیٰ کا ایک دفتر پاؤ گے اور سمجھ لوگے کہ سارے عالم میں جو آیات قدرت حق تعالیٰ کی ہیں انسان کے اپنے چھوٹے سے وجود میں وہ سب گویا سمٹ آئی ہیں، اسی لئے انسان کے وجود کو عالم اصغر کہا جاتا ہے کہ سارے عالم دنیا کی مثالیں انسان کے وجود میں موجود ہیں، انسان اگر اپنی ابتدا پیدائش سے لے کر موت تک کے پیش آنے والے حالات میں ہی غور و تدبر کرنے لگے تو اس کو حق تعالیٰ گویا اپنے سامنے نظر آنے لگیں۔
کہ کس طرح ایک انسانی نطفہ دنیا کے مختلف خطوں کی غذاؤں اور دنیا میں بکھرے ہوئے اجزاء لطیفہ کا خلاصہ بن کر رحم میں قرار پایا، پھر کس طرح نطفہ سے ایک منجمد خون علقہ بنا، پھر علقہ سے مضغہ (گوشت کا ٹکڑا) بنا، پھر کس طرح اس میں ہڈیاں بنائی گئیں، پھر ان پر گوشت چڑھایا گیا، پھر کس طرح اس بےجان پتلے میں جان ڈالی گئی اور اس کی تخلیق کی تکمیل کر کے اس دنیا میں لایا گیا، پھر کس طرح تدریجی ترقی کر کے ایک بےعلم بےشعور بچے سے ایک دانشمند فعال انسان بنایا گیا اور کس طرح ان کی صورتیں اور شکلیں مختلف بنائی گئیں کہ اربوں پدموں انسانوں میں ایک کا چہرہ دوسرے سے بالکل ممتاز نظر آتا ہے، اس چند انچ کے رقبہ میں ایسے امتیازات رکھنا کس کے بس کی بات ہے، پھر ان کی طبائع اور مزاجوں میں اختلاف اور اس اختلاف کے باوجود ایک وحدت یہ سب اس قدرت کاملہ کی کرشمہ سازی ہے جو بےمثل و بےمثال ہے۔ (آیت) فتبرک اللہ احسن الخلقین۔
یہ وہ چیزیں ہیں جن کا ہر انسان کہیں باہر اور دور نہیں خود اپنے ہی وجود میں دن رات مشاہدہ کرتا ہے اس کے باوجود بھی اگر وہ اللہ جل شانہ اور اس کی قدرت کا ملہ کا اعتراف نہ کرے تو کوئی اندھا ہی ہوسکتا ہے جس کو کچھ نہ سوجھے، اسی لئے آخر میں فرمایا افلاتبصرون ”یعنی کیا تم دیکھتے نہیں“ اشارہ اس طرف ہے کہ اس میں کچھ زیادہ عقل و سمجھ کا بھی کام نہیں، بینائی ہی درست ہو تو اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے۔
Top