Maarif-ul-Quran - An-Najm : 15
عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰىؕ
عِنْدَهَا : اس کے پاس جَنَّةُ الْمَاْوٰى : جنت الماویٰ ہے
اس کے پاس ہے بہشت آرام سے رہنے کی
عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰى، ماوی کے معنی ٹھکانا اور آرام کی جگہ، جنت کو ماوی اس لئے فرمایا کہ انسان کا اصل ٹھکانا اور مقام یہی ہے، یہیں آدم و حوا (علیہما السلام) کی تخلیق ہوئی ہے، یہیں سے ان کو زمین پر اتارا گیا اور پھر یہیں اہل جنت کا مقام ہوگا۔
جنت و دوزخ کا موجودہ مقام
اس آیت نے یہ بھی بتلا دیا کہ جنت اس وقت بھی موجود ہے جیسا کہ جمہور امت کا عقیدہ یہی ہے کہ جنت و دوزخ قیامت کے بعد پیدا نہیں کی جائی گی، یہ دونوں مقام اس وقت بھی موجود ہیں، اس آیت نے جنت کا محل وقوع بھی بتلا دیا کہ وہ ساتویں آسمان کے اوپر، عرش رحمن کے نیچے ہے، گویا ساتواں آسمان جنت کی زمین اور عرش رحمن اس کی چھت ہے، دوزخ کا محل وقوع کسی آیت قرآن یا روایت حدیث میں صراحۃً نہیں بتلایا، سورة طور کی آیت والْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ سے بعض مفسرین نے یہ مفہوم نکالا ہے کہ دوزخ سمندر کے نیچے زمین کے قعر میں ہے جس پر اس وقت کوئی بھاری اور سخت غلاف چڑھا ہوا ہے، جو قیامت میں پھٹ جائے گا اور اس کی آگ پھیل کر پورے سمندر کو آگ میں تبدیل کر دے گی۔
زمانہ حال میں یورپ کے بہت سے ماہرین نے جو زمین کو برما کر ایک طرف سے دوسری طرف جانے کا راستہ بنانے کی کوشش سالہا سال جاری رکھی اور بڑی سے بڑی مشینیں اس کام کے لئے ایجاد کیں، مختلف جماعتوں نے اس پر محنت خرچ کی، سب سے زیادہ جو جماعت کامیاب ہوئی وہ مشینوں کے ذریعہ زمین کی گہرائی میں چھ میل تک پہنچ سکی، مگر چھ میل کے بعد سخت پتھر نے ان کو عاجز کردیا تو پھر دوسری جگہ سے کھدائی شروع کی، مگر وہی چھ میل کے بعد سخت پتھر سے سابقہ پڑا، متعدد جگہوں میں اس کا تجربہ کرنے کے بعد ان کی تحقیق یہ قرار پائی کہ چھ میل کی گہرائی کے بعد کوئی غلاف حجری پوری زمین پر چڑھا ہوا ہے، جس میں کوئی مشین کام نہیں کرسکتی، زمین کا قطر جو ہزاروں میل کا ہے اس میں سے سائنس کے اس عروج کے زمانہ میں سائنس کی رسائی صرف چھ میل تک ہوسکی، آگے غلاف حجری کا اقرار کر کے اپنی کوشش چھوڑنا پڑی، اس واقعہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ زمین پوری کسی غلاف حجری سے بند کی ہوئی ہے، اگر کسی روایت صحیحہ سے جہنم کا محل وقوع اس غلاف کے اندر ہونا ثابت ہوجائے تو کچھ بعید نہیں، واللہ سبحانہ، و تعالیٰ اعلم۔
Top