Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 23
ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْا وَ اللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِیْنَ
ثُمَّ : پھر لَمْ تَكُنْ : نہ ہوگی۔ نہ رہی فِتْنَتُهُمْ : ان کی شرارت اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ قَالُوْا : وہ کہیں وَاللّٰهِ : قسم اللہ کی رَبِّنَا : ہمارا رب مَا كُنَّا : نہ تھے ہم مُشْرِكِيْنَ : شرک کرنے والے
پھر نہ رہے گا ان کے پاس کوئی فریب مگر یہی کہ کہیں گے قسم ہے اللہ کی جو ہمارا رب ہے ہم نہ تھے شرک کرنے والے
خلاصہ یہ ہے کہ اس سب سے بڑی امتحان گاہ میں اول تو ایک عرصہ دراز ایسا گزرے گا کہ امتحان شروع ہی نہ ہوگا، یہاں تک کہ یہ لوگ تمنا کرنے لگیں گے کہ کسی طرح امتحان اور حساب جلد ہوجائے، انجام کچھ بھی ہو، یہ تردّد اور تذبذب کی تکلیف تو جائے، اسی طول قیام اور عرصہ دراز کی طرف اشارہ کرنے کے لئے لفظ ثُمَّ کے ساتھ فرمایا ثُمَّ نَقُولُ ، اسی طرح دوسری آیت میں مشرکین کی طرف سے جو جواب مذکور ہے وہ بھی لفظ ثُمَّ کے ساتھ آیا ہے، جس سے معلوم ہوا کہ وہ لوگ بھی بڑے وقفہ کے بعد بہت غور و فکر اور سوچ بچار کرکے یہ جواب دیں گے کہ واللّٰہ ربنا ما کنا مشرکین ”یعنی اللہ رب العالمین کی قسم کھا کر کہیں گے کہ ہم تو مشرک نہ تھے“۔ اس آیت میں ان کے جواب کو لفظ فتنة سے تعبیر فرمایا ہے، اور یہ لفظ امتحان و آزمائش کے لئے بھی بولا جاتا ہے، اور کسی پر فریفتہ و مفتون ہوجانے کے لئے بھی۔ اور یہاں دونوں معنی مراد ہو سکتے ہیں پہلی صورت میں ان کے جواب امتحان کو امتحان سے تعبیر کردیا گیا ہے، اور دوسری صورت میں مراد یہ ہوگی کہ یہ لوگ دنیا میں ان بتوں اور خود ساختہ معبودوں پر مفتون تھے، اپنے جان و مال ان پر قربان کرتے تھے، مگر آج وہ ساری محبت و فریفتگی ختم ہوگئی، اور ان کا جواب بجز اس کے کچھ نہ ہوا کہ ان سے برات اور علیحدگی کا دعویٰ کریں۔
ان کے جواب میں ایک عجیب چیز یہ ہے کہ میدان قیامت کے ہولناک مناظر اور ربُّ الارباب کی قدرت کاملہ کے عجیب و غریب واقعات دیکھنے کے بعد ان کو یہ جرأت کیسے ہوئی کہ ربُّ العالمین کے سامنے کھڑے ہو کر جھوٹ بولیں اور وہ بھی اس شر ومد کے ساتھ کہ اسی کی ذات کبریاء کی قسم بھی کھا کر کہہ رہے ہیں کہ ہم مشرک نہیں تھے۔
عامہ مفسرین نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ان کا یہ جواب کچھ عقل و ہوش اور انجام بینی پر مبنی نہیں، بلکہ فرط ہیبت سے بوکھلاہٹ کی بناء پر ہے، اور ایسی حالت میں آدمی جو کچھ منہ میں آئے بالا کرتا ہے، لیکن میدان حشر کے عام واقعات و حالات میں غور کرنے کے بعد یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی ان کی پوری کیفیت اور حالت کو سامنے لانے کے لئے ان کو یہ قدرت بھی دے دی کہ وہ آزادانہ جو چاہیں کہیں جس طرح دنیا میں کہا کرتے تھے، تاکہ کفر و شرک کے گناہ عظیم کے ساتھ ان کا یہ عیب بھی اہل محشر کے سامنے آجائے کہ یہ جھوٹ بولنے میں بھی یکتا ہیں کہ اس ہولناک موقع پر بھی جھوٹ بولنے سے نہیں جھجکتے، قرآن مجید کی ایک دوسری (آیت) فیحلفون لہ کما یحلفون لکم سے اسی کی طرف اشارہ ہوتا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ جس طرح مسلمانوں کے سامنے جھوٹی قسمیں کھا جاتے ہیں اسی طرح خود رب العالمین کے سامنے بھی دروغ حلفی سے نہ چوکیں گے۔
محشر میں جب یہ قسمیں کھا کر اپنے شرک و کفر سے انکاری ہوجائیں گے تو اس وقت قادر مطلق ان کے مونہوں پر مہر سکوت لگا دیں گے اور ان کے اعضاء وجوارح ہاتھ پاؤں کو حکم دیں گے کہ تم شہادت دو کہ یہ لوگ کیا کیا کرتے تھے، اس وقت ثابت ہوگا کہ ہمارے ہاتھ پاؤں، آنکھ، کان یہ سب کے سب خدا تعالیٰ کی خفیہ پولیس تھی، وہ تمام اعمال و افعال کو ایک ایک کرکے سامنے رکھ دیں گے، اسی کے متعلق سورة یسین میں ارشاد ہے۔
(آیت) الیوم نختم علی افواھھم، اس مشاہدہ قدرت کے بعد کسی کو یہ جرأت نہ رہے گی کہ پھر کوئی بات چھپائے یا جھوٹ بولے۔
قرآن مجید میں دوسری جگہ ارشاد ہے(آیت) ولا یکتمون اللّٰہ حدیثا، ”یعنی اس روز وہ اللہ سے کوئی بات نہ چھپا سکیں گے“۔ اس کا مطلب حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے یہی بتلایا کہ پہلے پہلے تو خوب جھوٹ بولیں گے اور جھوٹی قسمیں کھائیں گے، لیکن جب خود ان کے ہاتھ پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے تو اس وقت کوئی غلط بات کہنے کی جرأت نہ رہے گی۔
غرض احکم الحاکمین کی عدالت میں مجرم کو اپنا بیان دینے کا پورا موقع آزادی کے ساتھ دیا جائے گا، اور جس طرح وہ دنیا میں جھوٹ بولتا تھا اس وقت بھی اس کا یہ اختیار سلب نہ ہوگا کیونکہ قادر مطلق اس کے جھوٹ کا پردہ خود اس کے ہاتھ پاؤں کے حوالہ سے چاک کردیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ موت کے بعد جو پہلا امتحان حدیث میں ہے کہ منکر نکیر جب کافر سے سوال کریں گے من ربک وما دینک، یعنی تیرا رب کون ہے اور تیرا دین کیا ہے ؟ تو کافر کہے گا ھاہ ھاہ لا ادری، ”یعنی ہائے ہائے میں کچھ نہیں جاتنا“۔ اس کے برخلاف مومن ربی اللّٰہ ودینی الاسلام، سے جواب دے گا، معلوم ہوتا ہے کہ اس امتحان میں کسی کو جھوٹ بولنے کی جرأت نہ ہوگی، ورنہ کافر بھی وہی جواب دے سکتا تھا جو مسلمان نے دیا۔ وجہ یہ ہے کہ وہ امتحان لینے والے فرشتے ہوں گے، نہ وہ غیب کا علم رکھتے ہیں، اور نہ ایسی قدرت کہ ہاتھ پاؤں کی گواہی لے لیں، اگر وہاں جھوٹ بولنے کا اختیار انسان کو ہوتا تو فرشتے تو اس کے جواب کے مطابق ہی عمل کرتے اور وہ نظام مختل ہوجاتا، بخلاف میدان حشر کے امتحان کے کہ وہاں سوال و جواب براہ راست عالم وخبیر اور قادر مطلق کے ساتھ ہوگا، وہاں کوئی جھوٹ بولے بھی تو چل نہیں سکے گا۔
تفسیر بحر محیط اور مظہری میں بعض حضرات کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے شرک سے انکار کرنے والے وہ لوگ ہوں گے جو کھلے طور پر کسی مخلوق کو خدا یا خدا کا نائب نہیں کہتے تھے۔ مگر ان کا عمل یہ تھا کہ خدائی کے سارے اختیارات مخلوق کو بانٹ رکھے تھے، اور انہی سے اپنی حاجتیں مانگتے، انہی کے نام کی نذر و نیاز کرتے، انہی سے روزی، تندرستی، اولاد اور ساری مرادیں مانگا کرتے تھے، یہ لوگ اپنے آپ کو مشرک نہ سمجھتے تھے، اس لئے میدان حشر میں بھی قسم کھا کر یہی کہیں گے کہ ہم مشرک نہ تھے، پھر اللہ تعالیٰ ان کی رسوائی کو واضح فرمائیں گے۔
دوسرا سوال اس آیت میں یہ ہوتا ہے کہ بعض آیات قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ جل شانہ کفار و فجار سے کلام نہ فرمائیں گے، اور اس آیت سے صاف یہ معلوم ہو رہا ہے کہ ان سے خطاب اور کلام ہوگا۔
جواب یہ ہے کہ خطاب و کلام بطور اکرام و اعزاز یا قبولیت دعاء نہ ہوگا، زجر و توبیخ کے خطاب کی نفی اس آیت میں مراد نہیں، اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ خطاب جو اس آیت میں مذکور ہے بواسطہ ملائکہ ہو، اور جس آیت میں خطاب و کلام الٓہی کی نفی کہ گئی ہو اس میں مراد کلام بلا واسطہ ہے۔
Top