Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 24
اُنْظُرْ كَیْفَ كَذَبُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ
اُنْظُرْ : تم دیکھو كَيْفَ : کیسے كَذَبُوْا : انہوں نے جھوٹ باندھا عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانوں وَ : اور ضَلَّ : کھوئی گئیں عَنْهُمْ : ان سے مَّا : جو كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ : وہ باتیں بناتے تھے
دیکھو تو کیسا جھوٹ بولے اپنے اوپر اور کھوئی گئیں ان سے وہ باتیں جو بنایا کرتے تھے
آخر آیت میں ارشاد فرمایااُنْظُرْ كَيْفَ كَذَبُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ ، اس میں رسول کریم ﷺ کو خطاب ہے کہ آپ ﷺ دیکھئے کہ ان لوگوں نے اپنی جانوں پر کیسا جھوٹ بولا ہے، اور جو کچھ وہ اللہ پر افتراء کیا کرتے تھے آج سب غائب ہوگیا، اپنی جانوں پر جھوٹ بولنے سے مراد یہ ہے کہ وبال اس جھوٹ کا انہی کی جانوں پر پڑنے والا ہے، اور افتراء سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دنیا میں ان کو اللہ کا سہیم و شریک ٹھہرانا ایک افتراء تھا، آج حقیقت سامنے آکر اس افتراء کی قلعی کھل گئی، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افتراء سے مراد جھوٹی قسم ہے جو محشر میں کھائی تھی، پھر ہاتھوں پیروں اور اعضاء کی گواہی سے وہ جھوٹ کھل گیا۔
اور بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ افتراء سے مراد مشرکین کی وہ تاویلیں ہیں جو اپنے معبودات باطلہ کے بارے میں دنیا میں کیا کرتے تھے، مثلاً مانعبدھم الا لیقربونا الی اللّٰہ زلفی، ”یعنی ہم ان بتوں کو خدا سمجھ کر ان کی عبادات نہیں کرتے، بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے سفارش کرکے قریب کردیں گے“۔ محشر میں یہ افتراء اس طرح کھل گیا کہ ان کی سب سے بڑی مصیبت کے وقت کسی نے نہ ان کی سفارش کی، نہ ان کے عذاب میں کچھ کمی کا ذریعہ بنے۔
یہاں ایک سوال یہ ہے کہ اس آیت سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت یہ سوال و جواب ہوں گے معبودات باطلہ سب غائب ہوں گے، کوئی سامنے نہ ہوگا، اور قرآن مجید کی ایک آیت میں یہ ارشاد ہے (آیت) احشروا الذین ظلموا وازواجھم وما کانوا یعبدون، ”یعنی قیامت میں حق تعالیٰ کا حکم یہ ہوگا کہ جمع کردو ظالموں کو اور ان کے ساتھیوں کو اور ان کو جن کی یہ لوگ عبادت کیا کرتے تھے“۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محشر میں معبودات باطلہ بھی حاضر و موجود ہوں گے۔
جواب یہ ہے کہ اس آیت میں ان کے غائب ہونے سے مراد یہ ہے کہ بحیثیت سہیم و شریک یا سفارش کرنے کے یہ غائب ہوں گے کہ ان لوگوں کو کوئی نفع نہ پہنچا سکیں گے ویسے حاضر و موجود ہوں گے، اس طرح دونوں آیتوں میں کوئی تعارض نہ رہا، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک وقت میں یہ سب ایک جگہ جمع کردیئے جائیں، پھر متفرق ہوجائیں، اور یہ سوال تفریق کے بعد کیا جائے۔
ان دونوں آیتوں میں یہ بات خصوصیت کے ساتھ یاد رکھنے کی ہے کہ اللہ جل شانہ، نے مشرکین کو حشر کے ہولناک میدان میں جو یہ اختیار دیا کہ وہ آزادانہ جو چاہیں کہہ سکیں یہاں تک کہ جھوٹی قسم کھا کر انہوں نے شرک سے انکار کردیا، اس میں شاید اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جھوٹ بولنے کی عادت ایک ایسی خبیث عادت ہے جو چھوٹتی نہیں، یہاں تک کہ یہ لوگ جو دنیا میں مسلمانوں کے سامنے جھوٹی قسمیں کھالیا کرتے تھے یہاں بھی باز نہ آئے اور پوری خلق خدا کے سامنے ان کی رسوائی ہوئی، اسی لئے قرآن و حدیث میں جھوٹ بولنے پر شدید وعید اور مذمت فرمائی گئی ہے، قرآن میں جا بجا کاذب پر لعنت کے الفاظ آئے ہیں، اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ فجور کا ساتھی ہے، اور جھوٹ اور فجور دونوں جہنم میں جائیں گے (ابن حبان فی صحیحہ)
اور رسول کریم ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ وہ عمل کیا ہے جس سے آدمی دوزخ میں جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ عمل جھوٹ ہے (مسند احمد) اور شب معراج میں رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کی دونوں باچھیں چیر دی جاتی ہیں۔ وہ پھر درست ہوجاتی ہیں، پھر چیر دی جاتی ہیں، اسی طرح یہ عمل اس کے ساتھ قیامت تک ہوتا رہے گا۔ آپ ﷺ نے جبرئیل امین سے دریافت کیا کہ یہ کون ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ یہ جھوٹ بولنے والا ہے۔
اور مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ آدمی پورا مومن اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک جھوٹ کو بالکل نہ چھوڑ دے یہاں تک کہ مزاح و مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولے۔
نیز بیہقی وغیرہ میں بسند صحیح وارد ہے کہ مسلمان کی طبیعت میں اور بری خصلتیں تو ہو سکتی ہیں، مگر خیانت اور جھوٹ نہیں ہوسکتا، اور ایک حدیث میں ہے کہ جھوٹ انسان کے رزق کو گھٹا دیتا ہے۔
Top