Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 108
وَّ نَزَعَ یَدَهٗ فَاِذَا هِیَ بَیْضَآءُ لِلنّٰظِرِیْنَ۠   ۧ
وَّنَزَعَ : اور نکالا يَدَهٗ : اپنا ہاتھ فَاِذَا ھِىَ : پس ناگاہ وہ بَيْضَآءُ : نورانی لِلنّٰظِرِيْنَ : ناظرین کے لیے
اور نکالا اپنا ہاتھ تو اسی وقت وہ سفید نظر آنے لگا دیکھنے والوں کو،
اس کے بعد فرمایا وّنَزَعَ يَدَهٗ فَاِذَا ھِىَ بَيْضَاۗءُ للنّٰظِرِيْنَ ، نزع کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز میں سے کسی قدر سختی کے ساتھ نکالنے کے ہیں، مراد یہ ہے کہ اپنے ہاتھ کو کھینچ کر نکالا، یہاں یہ مذکور نہیں کہ کس چیز میں سے نکالا۔ دوسری آیات میں دو چیزیں مذکور ہیں، ایک جگہ ادخل یَدَکَ فِی جَیبِکَ آیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو۔ دوسری جگہ واضْمُمْ يَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ مذکور ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اپنا ہاتھ اپنے بازو کے نیچے دباؤ۔ ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ ہاتھ کا نکالنا گریبان کے اندر سے یا بازو کے نیچے سے ہوتا تھا۔ یعنی کبھی گریبان میں ہاتھ ڈال کر نکالنے سے اور کبھی بازو کے نیچے دباکر نکالنے سے یہ معجزہ ظاہر ہوتا تھا کہ فَاِذَا ھِىَ بَيْضَاۗءُ للنّٰظِرِيْنَ ، یعنی وہ ہاتھ چمکنے والا ہوجاتا ہے دیکھنے والوں کے لئے۔
بیضاء کے لفظی معنی سفید کے ہیں اور ہاتھ کا سفید ہوجانا کبھی برص کی بیماری کے سبب بھی ہوا کرتا ہے، اس لئے ایک دوسری آیت میں اس جگہ من غیر سوء کا لفظ بھی آیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ہاتھ کی سفیدی کسی بیماری کے سبب نہ تھی۔ اور حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سفیدی بھی معمولی سفیدی نہ تھی بلکہ اس کے ساتھ روشنی ہوتی تھی جس سے ساری فضا روشن ہوجاتی تھی۔ (قرطبی)
اس جگہ لفظ للنّٰظِرِيْنَ بڑھا کر اس روشنی کے عجیب و غریب ہونے کی طرف اشارہ فرما دیا گیا ہے کہ یہ ایسی عجیب روشنی تھی کہ اس کے دیکھنے کے لئے ناظرین جمع ہوجاتے تھے۔ اس وقت فرعون کے مطالبہ پر حضرت موسیٰ ؑ نے دو معجزے دکھلائے، ایک لاٹھی کا اژدھا بن جانا دوسرے ہاتھ کو گریبان یا بغل میں ڈال کر نکالنے سے اس میں روشنی پیدا ہوجانا۔ پہلا معجزہ مخالفین کی ترہیب اور ڈرانے کے لئے، اور دوسرا معجزہ ان کی ترغیب اور قریب کرنے کے لئے ہے، جس میں اشارہ تھا کہ موسیٰ ؑ کی تعلیم ایک نور ہدایت رکھتی ہے اس کا اتباع باعث فلاح ہے۔
Top