Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 107
فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌۚۖ
فَاَلْقٰى : پس اس نے ڈالا عَصَاهُ : اپنا عصا فَاِذَا ھِىَ : پس وہ اچانک ثُعْبَانٌ : اژدھا مُّبِيْنٌ : صریح (صاف)
تب ڈال دیا اس نے اپنا عصا تو اسی وقت ہوگیا اژدھا صریح،
حضرت موسیٰ ؑ نے اس کے مطالبہ کو مانتے ہوئے اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دی وہ اژدھا بن گئی فَاِذَا ھِىَ ثُعْبَانٌ مُّبِيْنٌ، ثعبان بڑے اژدھا کو کہا جاتا ہے اور اس کی صفت مبین ذکر کرکے بتلاد یا کہ اس لاٹھی کا سانپ بن جانا کوئی ایسا واقعہ نہ تھا کہ کسی اندھیرے یا گوشہ پردہ میں واقع ہوا ہو جس کو کوئی دیکھے کوئی نہ دیکھے، جیسے عموما شعبدہ بازوں یا جادوگروں کا طرز ہوتا ہے، بلکہ یہ واقعہ بھرے دربار میں سب کے سامنے پیش آیا۔
بعض تاریخی روایات میں حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ اس اژدھا نے فرعون کی طرف منہ پھیلایا تو گھبرا کر تخت شاہی سے کود کر حضرت موسیٰ ؑ کی پناہ لی اور دربار کے ہزاروں آدمی اس کی دہشت سے مرگئے (تفسیر کبیر) لاٹھی کا سچ مچ سانپ بن جانا کوئی ناممکن یا محال چیز نہیں، ہاں عادت عامہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے حیرت انگیز اور قابل تعجب ضرور ہے، اور معجزہ و کرامت کا منشاء ہی یہ ہوتا ہے کہ جو کام عام آدمی نہ کرسکیں وہ انبیاء (علیہم السلام) کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاری کردیا جاتا ہے تاکہ عوام سمجھ لیں کہ ان کے ساتھ کوئی خدائی طاقت کام کر رہی ہے اس لئے حضرت موسیٰ ؑ کی لاٹھی کا سانپ بن جانا کوئی قابل تعجب و انکار نہیں ہو سکتا۔
Top