Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 116
قَالَ اَلْقُوْا١ۚ فَلَمَّاۤ اَلْقَوْا سَحَرُوْۤا اَعْیُنَ النَّاسِ وَ اسْتَرْهَبُوْهُمْ وَ جَآءُوْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ
قَالَ : کہا اَلْقُوْا : تم ڈالو فَلَمَّآ : پس جب اَلْقَوْا : انہوں نے ڈالا سَحَرُوْٓا : سحر کردیا اَعْيُنَ : آنکھیں النَّاسِ : لوگ وَاسْتَرْهَبُوْهُمْ : اور انہیں ڈرایا وَجَآءُوْ بِسِحْرٍ : اور وہ لائے عَظِيْمٍ : بڑا
کہا ڈالو پھر جب انہوں نے ڈالا، باندھ دیا لوگوں کی آنکھوں کو اور ان کو ڈرادیا اور لائے بڑا جادو،
حضرت موسیٰ ؑ نے ان کے منشاء کو محسوس کرکے اپنے معجزہ پر مکمل اطمینان ہونے کے سبب پہلا موقعہ ان کو دے دیا اور فرمایا اَلْقُوْا یعنی تم ہی پہلے ڈالو۔ اور ابن کثیر نے فرمایا کہ جادوگروں نے حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھ ادب و احترام کا معاملہ کیا کہ پہلا موقعہ ان کو دینے کی پیش کش کی، اسی کا یہ اثر تھا کہ ان کو ایمان کی توفیق ہوگئی۔
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اول تو جادو خود ہی ایک حرام فعل ہے، پھر جبکہ وہ کسی پیغمبر کو شکست دینے کے لئے استعمال کیا جائے تو بلا شبہ کفر ہے، پھر موسیٰ ؑ نے کیسے ان لوگوں کو اس کی اجازت دینے کے لئے فرمایا اَلْقُوْا یعنی تم ڈالو۔ لیکن حقیقت حال پر غور کرنے سے یہ سوال ختم ہوجاتا ہے کیونکہ یہاں تو یقینی تھا کہ یہ لوگ اپنا سحر مقابلہ پر ضرور پیش کریں گے، گفتگو صرف پہلے اور پیچھے کی تھی، اس میں حضرت موسیٰ ؑ نے اپنی اولو العزمی کا ثبوت دینے کے لئے ان کو ہی موقعہ عطا فرمایا، اس کے علاوہ اس میں ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ پہلے جادوگر اپنی لاٹھیوں اور رسیوں کے سانپ بنالیں تو پھر عصاء موسیٰ کا معجزہ، صرف یہی نہیں کہ وہ بھی سانپ بن جائے بلکہ اس طرح ظاہر ہو کہ وہ جادو کے سارے سانپوں کو نگل بھی جائے تاکہ جادوگری کی کھلی شکست پہلے ہی قدم پر سامنے آجائے (بیان القرآن) اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ موسیٰ ؑ کا یہ ارشاد ان کو جادوگری کرنے کی اجازت کے لئے نہیں بلکہ ان کی رسوائی کو واضح کرنے کے لئے تھا کہ اچھا تم ڈال کر دیکھو کہ تمہارے جادو کا کیا انجام ہوتا ہے۔
فَلَمَّآ اَلْقَوْا سَحَرُوْٓا اَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوْهُمْ وَجَاۗءُوْ بِسِحْرٍ عَظِيْمٍ ، یعنی جب جادوگروں نے اپنی لاٹھیاں اور رسیاں ڈالیں تو لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان پر ہیبت غالب کردی اور بڑا جادو دکھلا یا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کا جادو ایک قسم کی نظر بندی اور تخیل تھی جس سے دیکھنے والوں کو یہ محسوس ہونے لگا کہ یہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپ بن کر دوڑ رہے ہیں حالانکہ وہ واقع میں اسی طرح لاٹھیاں اور رسیاں ہی تھیں سانپ نہیں بنے تھے۔ یہ ایک قسم کا مسمریزم تھا جس کا اثر انسانی خیال اور نظر کو مغلوب کردیتا ہے۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ سحر صرف اسی قسم میں منحصر ہے، سحر کے ذریعہ انقلاب ماہیت نہیں ہو سکتا، کیونکہ کوئی شرعی یا عقلی دلیل اس کی نفی پر قائم نہیں ہے بلکہ سحر کی مختلف اقسام واقعات سے ثابت ہیں۔ کہیں تو صرف ہاتھ کی چالاکی ہوتی ہے جس کے ذریعہ دیکھنے والوں کو مغالطہ لگ جاتا ہے، کہیں صرف تخیل اور نظربندی ہوتی ہے جیسے مسمریزم سے۔ اور اگر کہیں قلب ماہیت بھی ہوجاتا ہو کہ انسان کا پتھر بن جائے تو یہ بھی کسی شرعی یا عقلی دلیل کے خلاف نہیں۔
Top