Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 116
قَالَ اَلْقُوْا١ۚ فَلَمَّاۤ اَلْقَوْا سَحَرُوْۤا اَعْیُنَ النَّاسِ وَ اسْتَرْهَبُوْهُمْ وَ جَآءُوْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ
قَالَ : کہا اَلْقُوْا : تم ڈالو فَلَمَّآ : پس جب اَلْقَوْا : انہوں نے ڈالا سَحَرُوْٓا : سحر کردیا اَعْيُنَ : آنکھیں النَّاسِ : لوگ وَاسْتَرْهَبُوْهُمْ : اور انہیں ڈرایا وَجَآءُوْ بِسِحْرٍ : اور وہ لائے عَظِيْمٍ : بڑا
(موسی (علیہ السلام) نے) کہا تم ہی ڈالو،152 ۔ پھر جب انہوں نے ڈالا لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا اور ان پر ہیبت غالب کردی اور بڑا جادو کردکھایا،153 ۔
152 ۔ احقاق حق کیلیے مقابلہ معجزہ سے سحر کا تو بہرحال ناگزیر تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے قدرۃ وہ شق اختیار کی جس میں احقاق حق کا پہلو زیادہ قوی ونمایاں تھا۔ مرشدتھانوی (رح) نے فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا مقصود اس سے خود اذن نہیں بلکہ اذن کو ان کے کفر کے ابطال اور اپنے معجزہ کے اثبات کا ذریعہ بنانا تھا۔ ایسی ہی مصلحت سے بعض اوقات شیوخ ایسے امر میں اذن دیتے ہیں کہ اس کا ظاہر معصیت ہوتا ہے مگر اس آخر میں اس میں کوئی مصلحت دینی ہوتی ہے اور وہی مصلحت ان کو مقصود ہوتی ہے۔ 153 ۔ ساحر اپنے فن کے ماہر تھے اور انہوں نے پورا ثبوت اپنے کمال فن کا دے دیا۔ (آیت) ” فلما القوا “۔ یعنی جب ساحروں نے زمین پر اپنی لاٹھیوں اور رسیوں کو ڈال دیا۔ (آیت) ” سحروا اعین الناس “۔ اور اس اثر سے وہ رسیاں اور لاٹھیاں سانپوں کی طرح لہراتی دکھائی دینے لگیں۔ یہ نظر بندی اور آنکھوں کی مسحوریت سحر ہی کی قسم ہے۔ قرآن ساحروں کے کرتب کے سلسلہ میں تبدیلی حقیقت کا مدعی نہیں اور یہ دعوی کہ یہ لاٹھیاں یا رسیاں واقعی سانپ بن گئی تھیں اور سحر نے بھی وہی کردکھایا جو معجزہ کا حاصل تھا۔ قرآن کا نہیں۔ البتہ توریت کا ہے۔ چناچہ مصر کے جادو گروں نے بھی اپنے جادؤں سے ایسا ہی کیا کہ ان میں سے ہر ایک نے اپنا اپنا عصا پھینکا۔ اور وہ سانپ ہوگیا۔ (خروج۔ 7: 1 1، 12) قرآن کے شارحین تو سب اسے خیال بندی ہی کے معنی میں لیتے ہیں ای خیلوا لھم وقلبوھا عن صحۃ ادراکھا (قرطبی) اروھا بالحیل والشعوذۃ وخیلوا لیھا ما الحقیقۃ بخلافہ (کشاف) ای خیلوا الی الابصار ان ما فعلوہ لہ حقیقۃ فی الخارج ولم یکن الا مجرد صنعۃ و خیال (ابن کثیر) ای صرفوا اعینھم عن ادراک حقیقتہ ما فعلوہ من التمویہ والتخییل وھذا ھو السحر (معالم) معجزہ حق دیکھئے کہ بائبل کے محققین کا فیصلہ آج تو ریت کی روایت کے حق میں نہیں۔ قرآنی بیان کی تائید میں ہے۔ ملاحظہ ہو انگریزی کی تفسیر القرآن۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ سورة طہ میں ہے۔ (آیت) ” یخیل الیہ “۔ تو اس سے امور ذیل مستنبط ہوئے۔ ( 1) خوارق سے دھوکانہ کھانا، اس لیے کہ یہ تو اہل باطل سے بھی صادر ہوسکتے ہیں۔ (2) سحر کی ایک قسم خیال میں تصرف کرنا بھی ہے اور اسی میں مسمر یزم داخل ہے (3) ایسی چیزوں سے متاثر ہوجانا کمال باطنی کے منافی نہیں چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) بھی خائف ہوئے (4) اہل حق کا ایسے امور پر یا ان کے ابطال پر قادر ہونا ضروری نہیں۔
Top