Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 123
قَالَ فِرْعَوْنُ اٰمَنْتُمْ بِهٖ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ١ۚ اِنَّ هٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوْهُ فِی الْمَدِیْنَةِ لِتُخْرِجُوْا مِنْهَاۤ اَهْلَهَا١ۚ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ
قَالَ : بولا فِرْعَوْنُ : فرعون اٰمَنْتُمْ : کیا تم ایمان لائے بِهٖ : اس پر قَبْلَ : پہلے اَنْ : کہ اٰذَنَ : میں اجازت دوں لَكُمْ : تمہیں اِنَّ : بیشک هٰذَا : یہ لَمَكْرٌ : ایک چال ہے مَّكَرْتُمُوْهُ : جو تم نے چلی فِي : میں الْمَدِيْنَةِ : شہر لِتُخْرِجُوْا : تاکہ نکال دو مِنْهَآ : یہاں سے اَهْلَهَا : اس کے رہنے والے فَسَوْفَ : پس جلد تَعْلَمُوْنَ : تم معلوم کرلوگے
بولا فرعون کیا تم ایمان لائے اس پر میری اجازت سے پہلے، یہ تو مکر ہے جو بنایا تم سب نے اس شہر میں تاکہ نکال دو اس شہر سے اس کے رہنے والوں کو، سو اب تم کو معلوم ہوجائے گا
خلاصہ تفسیر
فرعون (بڑا گھبرایا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ساری رعایا ہی مسلمان ہوجائے تو ایک مضمون گھڑ کر ساحروں سے) کہنے لگا کہ ہاں تم موسیٰ ؑ پر ایمان لائے ہو بدون اس کے کہ میں تم کو اجازت دوں بیشک (معلوم ہوتا ہے کہ) یہ (جو کچھ جنگ زرگری کے طور پر ہوا ہے) ایک کارروائی تھی جس پر تمہارا عمل درآمد ہوا ہے اس شہر میں (خفیہ سازش ہوگئی ہے کہ تم یوں کرنا ہم یوں کریں گے پھر اس طرح ہار جیت ظاہر کریں گے اور یہ کارروائی ملی بھگت اس لئے کی ہے) تاکہ تم سب (مکر) اس شہر سے وہاں کے رہنے والوں کو باہر نکال دو (پھر بفراغ خاطر سب مل کر یہاں ریاست کرو) سو (بہتر ہے) اب تم کو حقیقت معلوم ہوئی جاتی ہے) اور وہ یہ ہے کہ) میں تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹوں گا پھر تم سب کو سولی پر ٹانگ دوں گا (تاکہ اوروں کو عبرت ہو) انہوں نے جواب دیا کہ (کچھ پرواہ نہیں) ہم مر کر (کسی برے ٹھکانے تو نہ جائیں گے بلکہ) اپنے مالک ہی کے پاس جائیں گے (جہاں ہر طرح امن و راحت ہے، سو ہمارا نقصان ہی کیا ہے) اور تو نے ہم میں کونسا عیب دیکھا ہے (جس پر اس قدر شور وغل ہے) بجز اس کے کہ ہم اپنے رب کے احکام پر ایمان لے آئے (سو یہ کوئی عیب کی بات نہیں پھر اس سے اعراض کرکے حق تعالیٰ سے دعا کی کہ) اے ہمارے رب ! ہمارے اوپر صبر کا فیضان فرما (کہ اگر یہ سختی کرے تو مستقل رہیں) اور ہماری جان حالت اسلام پر نکالئے (کہ اس کی سختی سے پریشان ہو کر کوئی بات ایمان کے خلاف نہ ہوجائے) اور (جب موسیٰ ؑ کا یہ معجزہ عظیمہ منظر عام پر ظاہر ہوا اور ساحرین ایمان لے آئے اور بعضے اور لوگ بھی آپ کے تابع ہوگئے اس وقت قوم فرعون کے سرداروں نے (جو کہ اعیان سلطنت تھے یہ دیکھ کر کہ بعضے آدمی مسلمان ہو چلے فرعون سے) کہا کہ کیا آپ موسیٰ ؑ کو اور ان کی قوم (تابعین) کو یوں ہی (مخلی بالطبع ومطلق العنان آزاد) رہنے دیں گے کہ وہ ملک میں فساد کرتے پھریں (فساد یہ کہ اپنا مجمع بڑھائیں جس کے اخیر میں اندیشہ بغاوت ہے) اور وہ (یعنی موسیٰ ؑ آپ کو اور آپ کے (تجویز کئے ہوئے) معبودوں کو ترک کئے رہیں (یعنی ان کے معبود ہونے کے منکر رہیں اور موسیٰ ؑ کے ساتھ ان کی قوم بھی ایسا ہی کرے یعنی آپ اس کا انتظام کیجئے) فرعون نے کہا کہ (سردست یہ انتظام مناسب معلوم ہوتا ہے کہ) ہم بھی ان لوگوں کے بیٹوں کو قتل کرنا شروع کردیں (تاکہ ان کا زور نہ بڑھنے پائے) اور (چونکہ عورتوں کے بڑھنے سے کوئی اندیشہ نہیں نیز ہم کو اپنے کار و خدمت کے لئے بھی ضرورت ہے اس لئے) عوتوں کو زندہ رہنے دیں اور ہم کو ہر طرح کا ان پر زور ہے (اس انتظام میں کوئی دشواری نہ ہوگی)

معا رف و مسائل
ان سے پہلی آیات میں مذکور تھا کہ فرعون نے اپنی قوم کے سرداروں کے مشورہ سے موسیٰ ؑ کے مقابلہ کے لئے جن ساحروں کو پورے ملک سے جمع کیا تھا وہ میدان مقابلہ میں ہار گئے۔ اور صرف یہی نہیں کہ اپنی ہار مان لی بلکہ حضرت موسیٰ ؑ پر ایمان لے آئے۔ تاریخی روایات میں ہے کہ جادوگروں کے سردار مسلمان ہوگئے تو ان کو دیکھ کر قوم فرعون کے چھ لاکھ آدمی حضرت موسیٰ ؑ پر ایمان لے آئے اور اعلان کردیا۔ اس مقابلہ اور مناظرہ سے پہلے تو صرف دو حضرات موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) فرعون کے مخالف تھے۔ اس وقت سب سے بڑے جادوگر جو قوم میں اقتدار کے مالک تھے اور ان کے ساتھ چھ لاکھ عوام مسلمان ہو کر ایک بہت بڑی طاقت مقابلہ پر آگئی۔
اس وقت فرعون کی پریشانی اور سراسیمگی بیجا نہ تھی مگر اس نے اس کو چھپا کر ایک چالاک ہوشیار سیاست دان کے انداز میں پہلے تو جادوگروں پر یہ باغیانہ الزام لگایا کہ تم نے حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھ خفیہ سازش کرکے یہ کام اپنے ملک وملت کو نقصان پہنچانے کے لئے کیا ہے اِنَّ هٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوْهُ فِي الْمَدِيْنَةِ ، یعنی یہ ایک سازش ہے جو تم نے میدان مقابلہ میں آنے سے پہلے شہر کے اندر آپس میں کر رکھی تھی۔ اور پھر جادوگروں کو خطاب کر کے کہا اٰمَنْتُمْ بِهٖ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ یعنی کیا تم نے میری اجازت سے پہلے ہی ایمان قبول کرلیا۔ یہ استفہام انکاری بطور زجر و تنبیہ کے تھا۔ اور اپنی اجازت سے پہلے ایمان لانے کا ذکر کرکے لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ ہم خود بھی یہی چاہتے تھے کہ اگر موسیٰ ؑ کا حق پر ہونا واضح ہوجائے تو ہم بھی ان کو مانیں اور لوگوں کو بھی اجازت دیں کہ وہ مسلمان ہوجائیں لیکن تم لوگوں نے جلد بازی کی اور حقیقت کو سوچے سمجھے بغیر ایک سازش کے شکار ہوئے۔ اس چالاکی سے ایک طرف تو لوگوں کے سامنے موسیٰ ؑ کے معجزہ اور جادوگروں کی تسلیم کو ایک سازش قراردے کر ان کو قدیم گمراہی میں مبتلا رکھنے کا انتظام کیا، اور دوسری طرف سیاسی چالاکی یہ کی کہ موسیٰ ؑ کا عمل اور جادوگروں کا اسلام جو خالص فرعون کی گمراہی کو کھولنے کے لئے تھا، قوم اور عوام سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا اس کو ایک ملکی اور سیاسی مسئلہ بنانے کے لئے کہا، لِتُخْرِجُوْا مِنْهَآ اَهْلَهَا یعنی تم لوگوں نے یہ سازش اس لئے کی ہے کہ تم چاہتے ہو کہ ملک مصر پر تم غالب آجاؤ اور اس کے باشندوں کو یہاں سے نکال دو ، ان چالاکیوں کے بعد ان سب پر اپنی ہیبت اور حکومت کا رعب وخوف جمانے کے لئے جادوگروں کو دھمکیاں دینی شروع کیں، اول تو مبہم انداز میں کہا، فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ یعنی تم ابھی دیکھ لوگے کہ تمہاری اس سازش کا کیا انجام ہوتا ہے، اس کے بعد اس کو واضح کر کے بتلایا۔
Top