Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 123
قَالَ فِرْعَوْنُ اٰمَنْتُمْ بِهٖ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ١ۚ اِنَّ هٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوْهُ فِی الْمَدِیْنَةِ لِتُخْرِجُوْا مِنْهَاۤ اَهْلَهَا١ۚ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ
قَالَ : بولا فِرْعَوْنُ : فرعون اٰمَنْتُمْ : کیا تم ایمان لائے بِهٖ : اس پر قَبْلَ : پہلے اَنْ : کہ اٰذَنَ : میں اجازت دوں لَكُمْ : تمہیں اِنَّ : بیشک هٰذَا : یہ لَمَكْرٌ : ایک چال ہے مَّكَرْتُمُوْهُ : جو تم نے چلی فِي : میں الْمَدِيْنَةِ : شہر لِتُخْرِجُوْا : تاکہ نکال دو مِنْهَآ : یہاں سے اَهْلَهَا : اس کے رہنے والے فَسَوْفَ : پس جلد تَعْلَمُوْنَ : تم معلوم کرلوگے
فرعون نے کہا تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں ، یقینا یہ کوئی خفیہ سازش تھی جو تم لوگوں نے اس دار السلطنت میں کی تاکہ اس کے مالکوں کو اقتدار سے بےدخل کرو۔ اچھا تو اس کا نتیجہ اب تمہیں معلوم ہوا جاتا ہے
ذرا انداز ملاحظہ ہو۔ تم اس پر ایمان لائے ہو قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں۔ گویا یہ ان کا قانونی فرض تھا کہ وہ اس سے اجازت لیں کہ وہ ایمان قبول کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں وہ خود مختار نہیں ہیں۔ یا مطلب یہ ہے کہ ان کے شعور و وجدان کو کوئی حرکت نہیں کرنا چاہئے اور وہ اپنے شعور کے معاملے میں بھی خود مختار نہیں ہیں۔ اگر ان کے قلب و نظر پر کوئی روشنی پڑتی ہے تو انہیں حجاب کرنا چاہئے اور اس معاملے میں بھی فرعون سے پوچھنا چاہئے۔ اگر ان کے دلوں میں کوئی عقیدہ یا یقین بیٹھتا ہے تو انہیں اس کی اجازت نہیں ہے کہ فرعون کے اذن کے بغیر ایسا کریں غرض ان کا فرض ہے کہ ہر قسم کی نئی روشنی سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔ لیکن ہر طاغوتی طاقت جاہل اور غبی ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہر طاغوتی طاقت متکبر ، مغرور اور انتہا پسند ہوتی ہے۔ نیز ہر طاغوتی طاقت اپنے اقتدار کے بارے میں نہایت حساس ہوتی ہے اور اسے ایسی باتوں سے اپنا اقتدار خطرے میں نظر آتا ہے اور طاغوتی تخت اور اقتدار متزلزل نظر آتا ہے۔ اِنَّ هٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوْهُ فِي الْمَدِيْنَةِ لِتُخْرِجُوْا مِنْهَآ اَهْلَهَا ۔ یقینا کوئی خفیہ سازش تھی جو تم لوگوں نے اس دار السلطنت میں کی تاکہ اس کے مالکوں کو اقتدار سے بےدخل کردو۔ اچھا تو اس کا نتیجہ اب تمہیں معلوم ہوا جاتا ہے۔ اور ایک دوسری آیت میں ہے (انہ لکبیرکم الذی علمکم السحر) یہ تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے۔ بہرحال یہ مسئلہ بالکل واضح ہے۔ حضرت موسیٰ کی دعوت رب العالمین کی طرف تھی اور ہر وہ دعوت جو رب العالمین کی طرف ہوتی ہے وہ نہایت خوفناک ہوتی ہے ۔ جہاں بھی رب العالمین کی طرف دعوت پھیل جائے وہاں طاغوتی نظام باقی ہی نہیں رہتا۔ اس لئے کہ طاغوتی نظام قائم ہی اس بات پر ہوتا ہے کہ اس میں رب العالمین کے اقتدار اور قانون کے بجائے دوسرے انسانوں کا اقتدار اور قانون نافذ ہوتا ہے اور انسان زمین پر بطور رب کام کرتے ہیں۔ انسانوں کو اپنا غالم بناتے ہیں اور ان کے لئے جو چاہتے ہیں قوانین بناتے ہیں۔ در اصل یہ دو مستقل نظام حیات ہوتے ہیں جو ایک جگہ جمع ہو ہی نہیں ہوسکتے۔ بلکہ یہ دو الگ الگ دین ہوتے ہیں اور ان کے دو الگ الگ رب ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کو فرعون اچھی طرح جانتا تھا۔ اس کی جماعت بھی اچھی طرح جانتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حجرت موسیٰ کی دعوت کے نتیجے میں فرعون کا اقتدار متزلزل ہوگیا تھا اور اب جبکہ جادوگر سب کے سب سجدے میں گر گئے اور انہوں نے اعلان کردیا کہ انہوں نے رب العالمین کی دعوت تسلیم کرلی ہے اور وہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کے رب پر ایمان لائے ہیں۔ یہ جادوگر اس وقت کے مذہبی لیڈر اور کاہن تھے اور انہوں نے دینی اعتبار سے فرعون کو رب الناس کا مقام دیا ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ فرعون نے ان کو اس قدر وحشیانہ اور عبرت آموز سزا کی دھمکی دی۔
Top