Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 125
قَالُوْۤا اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَۚ
قَالُوْٓا : وہ بولے اِنَّآ : بیشک ہم اِلٰى : طرف رَبِّنَا : اپنا رب مُنْقَلِبُوْنَ : لوٹنے والے
وہ بولے ہم کو تو اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہی ہے
اِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَ ، یعنی اگر تو ہمیں قتل کردے گا تو مضائقہ نہیں، ہم اپنے رب کے پاس چلے جائیں گے، جہاں ہم کو ہر طرح کی راحت ملے گی۔ جادوگر چونکہ فرعون کی سطوت وجبروت سے ناواقف نہ تھے اس لئے یہ نہیں کہا کہ ہم تیرے قابو میں نہیں آئیں گے یا ہم مقابلہ کریں گے بلکہ اس کی دھمکی کو صحیح مان کر یہ جواب دیا کہ یہ مانا کہ تو ہمیں ہر قسم کی سزا دینے پر دنیا میں قادر ہے مگر ہم دنیا کی زندگی ہی کو ایمان لانے کے بعد کوئی چیز نہیں سمجھتے، دنیا سے گزر جائیں گے تو اس زندگی سے بہتر زندگی ملے گی اور اپنے رب کی ملاقات نصیب ہوگی۔ اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ اس زندگی میں جو تیرا دل چاہے کرلے، آخر کار ہم اور تم سب رب العالمین کے سامنے پیش ہوں گے اور وہ ظالم سے مظلوم کا انتقام لیں گے اس وقت اپنے اس عمل کا نتیجہ تیرے سامنے آجائے گا۔ چناچہ ایک دوسری آیت میں اس موقع پر ان جادوگروں کے یہ الفاظ منقول ہیں، فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ ۭ اِنَّمَا تَقْضِيْ هٰذِهِ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا، یعنی جو تیرا جی چاہے ہمارے بارے میں حکم دے دے، بس اتنا ہی تو ہے کہ تیرا حکم ہماری اس دنیوی زندگی پر چل سکتا ہے اور تیرے غصہ کے نتیجے میں وہ زندگی ختم ہو سکتی ہے مگر ایمان لانے کے بعد ہماری نظر میں اس دنیوی زندگی کی وہ اہمیت ہی باقی نہیں رہی جو ایمان لانے سے پہلے تھی کیونکہ ہمیں معلوم ہوگیا کہ یہ زندگی راحت یا کلفت کے ساتھ گزر ہی جائے گی، فکر اس زندگی کی کرنا چاہئے جس کے بعد موت نہیں اور جس کی راحت بھی دائمی ہے اور کلفت بھی۔
Top