Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 205
وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَةً وَّ دُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ
وَاذْكُرْ
: اور یاد کرو
رَّبَّكَ
: اپنا رب
فِيْ
: میں
نَفْسِكَ
: اپنا دل
تَضَرُّعًا
: عاجزی سے
وَّخِيْفَةً
: اور ڈرتے ہوئے
وَّدُوْنَ
: اور بغیر
الْجَهْرِ
: بلند
مِنَ
: سے
الْقَوْلِ
: آواز
بِالْغُدُوِّ
: صبح
وَالْاٰصَالِ
: اور شام
وَلَا تَكُنْ
: اور نہ ہو
مِّنَ
: سے
الْغٰفِلِيْنَ
: بیخبر (جمع)
اور یاد کرتا رہ اپنے رب کو اپنے دل میں گڑ گڑاتا ہوا اور ڈرتا ہوا اور ایسی آواز سے جو کہ پکار کر بولنے سے کم ہو صبح کے وقت اور شام کے وقت اور مت رہ بیخبر ،
خلاصہ تفسیر
اور (آپ ہر شخص سے یہ بھی کہہ دیجئے) اے شخص اپنے رب کی یاد کیا کر (قرآن سے یا تسبیح وغیرہ سے خواہ) اپنے دل میں (یعنی آہستہ آواز سے) عاجزی کے ساتھ اور (خواہ) زور کی آواز نسبت کم آواز کے ساتھ (اسی عاجزی اور خوف کے ساتھ) صبح و شام (یعنی علی الدوام) اور (دوام کا مطلب یہ ہے کہ) اہل غفلت میں شمار مت ہونا (کہ اذکار مامور بہا بھی ترک کردو) یقینا جو (ملائکہ) تیرے رب کے نزدیک (مقرب) ہیں اس کی عبادت سے (جس میں اصلی عقائد ہیں) تکبر نہیں کرتے اور اس کی پاکی بیان کرتے ہیں (جو کہ اطاعت لسانی ہے) اور اس کو سجدہ کرتے ہیں (جو کہ اعمال جوارح سے ہے)۔
معارف و مسائل
ان سے پہلی آیات میں قرآن مجید سننے کا ذکر اور اس کے آداب کا بیان تھا، ان دو آیتوں میں جمہور کے نزدیک مطلق ذکر اللہ کا حکم اور اس کے آداب کا بیان ہے جس میں تلاوت قرآن بھی شامل ہے، اور حضرت عبداللہ بن عباس کے نزدیک اس میں بھی ذکر سے مراد قرآن ہی ہے اور جو آداب اس میں بیان ہوئے ہیں وہ بھی تلاوت قرآن ہی سے متعلق ہیں، لیکن یہ کوئی اختلاف نہیں کیونکہ علاوہ قرآن کے دوسرے اذکار کا بھی سب کے نزدیک یہی حکم اور یہی آداب ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں انسان کو اللہ کی یاد اور ذکر کا حکم اور اس کے ساتھ اس کے اوقات اور آداب کا بیان ہے۔
ذکر خفی اور ذکر جہر کے احکام
پہلا ادب ذکر کے آہستہ یا بلند آواز سے کرنے کے متعلق ہے اس کے بارے میں قرآن کریم نے اس آیت میں دو طرح کا اختیار دیا ہے، ذکر خفی اور ذکر جہر۔ ذکر خفی کے بارے میں فرمایا (آیت) وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ یعنی اپنے رب کو یاد کیا کرو اپنے دل میں، اس کی بھی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ بغیر زبان کی حرکت کے صرف دل میں دھیان اور خیال اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا رکھے جس کو ذکر قلبی یا تفکر کہا جاتا ہے، دوسرے یہ کہ اس کے ساتھ زبان سے بھی آہستہ آواز میں اسماء الہیہ کے حروف ادا کرے، سب سے افضل اور بہتر صورت یہی ہے کہ جو ذکر کررہا ہے اس کے مفہوم کو سمجھ کر دل میں بھی اس کا پورا استحضار اور دھیان ہو اور زبان سے بھی ادا کرے کیونکہ اس صورت میں قلب کے ساتھ زبان بھی ذکر میں شریک ہوجاتی ہے اور اگر صرف دل میں دھیان اور تفکر میں مشغول رہے زبان سے کوئی حرف ادا نہ کرے وہ بھی بڑا ثواب ہے اور سب سے کم درجہ اس کا ہے کہ صرف زبان پر ذکر ہو اور قلب اس سے خالی اور غافل ہو، ایسے ہی ذکر کو مولانا رومی نے فرمایا ہے
بر زباں تسبیح و در دل گاؤ خر ایں چنیں تسبیح کے دارد اثر
اور مقصد مولانا رومی کا یہ ہے کہ قلب غافل کے ذکر کرنے سے ذکر کے آثار و برکات کامل حاصل نہیں ہوتے، اس کا انکار نہیں کہ یہ صرف زبانی ذکر بھی ثواب اور فائدہ سے خالی نہیں، کیونکہ بعض اوقات یہ زبانی ذکر ہی قلبی ذکر کا ذریعہ اور سبب بن جاتا ہے، زبان سے کہتے کہتے قلب بھی متاثر ہونے لگتا ہے اور کم از کم ایک عضو تو ذکر میں مشغول ہے ہی، وہ بھی ثواب سے خالی نہیں، اس لئے جن لوگوں کو ذکر و تسبیح میں دل جمعی اور دھیان اور استحضار نہیں ہوتا وہ بھی ایسے ذکر کو بےفائدہ سمجھ کر چھوڑیں نہیں، جاری رکھیں اور استحضار کی کوشش کرتے رہیں۔
دوسرا طریقہ ذکر کا اسی آیت میں یہ بتلایا (آیت) وَّدُوْنَ الْجَــهْرِ مِنَ الْقَوْلِ ، یعنی زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ یعنی ذکر اللہ میں مشغول ہونے والے کو یہ بھی اختیار ہے کہ آواز سے ذکر کرے مگر اس کا ادب یہ ہے کہ بہت زور سے چیخ کر نہ کرے متوسط آواز کے ساتھ کرے جس میں ادب و احترام ملحوظ رہے، بہت زور سے ذکر و تلاوت کرنا اس کی علامت ہوتی ہے کہ مخاطب کا ادب و احترام اس کے دل میں نہیں، جس ہستی کا ادب و احترام اور رعب انسان کے دل میں ہوتا ہے اس کے سامنے طبعی طور پر انسان بہت بلند آواز سے نہیں بول سکتا، اس لئے عام ذکر اللہ ہو یا تلاوت قرآن جب آواز سے پڑھا جائے تو اس کی رعایت رکھنا چاہئے کہ ضرورت سے زائد آواز بلند نہ ہو۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت سے ذکر اللہ اور تلاوت قرآن کے تین طریقے حاصل ہوئے، ایک یہ کہ صرف ذکر قلبی یعنی معانی قرآن اور معانی ذکر کے تصور اور تفکر پر اکتفاء کرے، زبان کو بالکل حرکت نہ ہو، دوسرے یہ کہ اس کے ساتھ زبان کو بھی حرکت دے مگر آواز بلند نہ ہو جس کو دوسرے آدمی سن سکیں، یہ دونوں طریقے ذکر کے ارشاد ربانی (آیت) وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ میں داخل ہیں اور تیسرا طریقہ یہ ہے کہ استحضار قلب اور دھیان کے ساتھ زبان کی حرکت بھی ہو اور آواز بھی، مگر اس طریق کے لئے ادب یہ ہے کہ آواز کو زیادہ بلند نہ کرے، متوسط حد سے آگے نہ بڑھائے، یہ طریقہ ارشاد قرآنی (آیت) وَّدُوْنَ الْجَــهْرِ مِنَ الْقَوْلِ میں تلقین فرمایا گیا ہے، قرآن کریم کی ایک دوسرے آیت نے اس کی مزید وضاحت ان لفظوں میں فرمائی ہے، (آیت) ۚ وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا، اس میں آنحضرت ﷺ کو حکم ہے کہ اپنی قرأت میں نہ زیادہ جہر کیا کریں اور نہ بالکل اخفاء بلکہ جہر اور اخفاء کے درمیانی کیفیت رکھا کریں۔
نماز میں قرأت قرآن کے متعلق آنحضرت ﷺ نے حضرت صدیق اکبر اور فاروق اعظم ؓ کو یہی ہدایت فرمائی۔
صحیح حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ آخر رات میں گھر سے نکلے، حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے مکان پر پہنچے تو دیکھا کہ وہ نماز میں مشغول تھے مگر تلاوت آہستہ کررہے تھے، پھر حضر عمر بن خطاب ؓ کے مکان پر پہنچے تو دیکھا کہ بہت بلند آواز سے تلاوت کر رہے تھے، جب صبح کو یہ دونوں حضرات حاضر خدمت ہوئے تو آپ نے صدیق اکبر سے فرمایا کہ میں رات تمہارے پاس گیا تو دیکھا کہ تم پست آواز سے تلاوت آپ کر رہے تھے، صدیق نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے جس ذات کو سنانا تھا اس نے سن لیا یہ کافی ہے، اسی طرح فاروق اعظم سے فرمایا کہ آپ بلند آواز سے تلاوت کررہے تھے، انہوں نے عرض کیا کہ قرأت میں جہر کرنے سے میرا مقصد یہ تھا کہ نیند کا غلبہ نہ رہے اور شیطان اس کی آواز سے بھاگے، آنحضرت ﷺ نہ فیصلہ فرمایا کہ صدیق اکبر کو یہ ہدایت کی کہ ذرا کچھ آواز بلند کیا کریں اور فاروق اعظم کو یہ کہ کچھ پست کیا کریں۔ (ابوداؤد)
ترمذی میں روایت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ سے آنحضرت ﷺ کی تلاوت کے بارے میں بعض حضرات نے سوال کیا کہ جہرا کرتے تھے یا سِرًّا ؟ انہوں نے فرمایا کہ کبھی جہرا کبھی سرا دونوں طرح تلاوت فرماتے تھے۔
رات کی نفل نماز میں اور خارج نماز تلاوت میں بعض حضرات نے جہر پسند کیا بعض نے آہستہ کو، اسی لئے امام اعظم ابوحنیفہ نے فرمایا کہ تلاوت کرنے والے کو اختیار ہے جس طرح چاہے تلاوت کرے، البتہ آواز سے تلاوت کرنے میں چند شرائط سب کے نزدیک ضروری ہیں، اول یہ کہ اس میں نام و نمود اور ریاء کا اندیشہ نہ ہو، دوسرے اس کی آواز سے دوسرے لوگوں کا حرج یا تکلیف نہ ہو، کسی دوسرے شخص کی نماز و تلاوت یا کام میں یا آرام میں خلل انداز نہ ہو، اور جہاں نام و نمود اور ریاء کا یا دوسرے لوگوں کے کام یا آرام میں خلل کا اندیشہ ہو تو سب کے نزدیک آہستہ ہی پڑھنا افضل ہے۔
اور جو حکم تلاوت قرآن کا ہے وہی دوسرے اذکار و تسبیح کا ہے کہ آہستہ اور بلند آواز سے دونوں طرح جائز ہے بشرطیکہ آواز اتنی بلند نہ ہو جو خشوع و خضوع اور ادب کے خلاف ہو نیز اس کی آواز سے دوسرے لوگوں کے کام یا آرام میں خلل نہ آتا ہو۔
اور اس کا فیصلہ کہ سراً اور جہراً میں سے افضل کیا ہے، اشخاص اور حالات کے اعتبار سے مختلف ہے، بعض لوگوں کے لئے جہر بہتر ہوتا ہے بعض کے لئے آہستہ، نیز بعض اوقات جہر بہتر ہوتا ہے بعض وقت سرا، (تفسیر مظہری و روح البیان وغیرہ)
دوسرا ادب تلاوت اور ذکر کا یہ ہے کہ عاجزی اور تضرع کے ساتھ ذکر کیا جاوے جو نتیجہ اس کا ہوتا ہے کہ انسان کو حق تعالیٰ کی عظمت و جلال مستحضر ہو اور جو ذکر کررہا ہے اس کے معنی و مفہوم پر نظر ہو۔
تیسرا ادب اسی آیت میں لفظ خیفہ سے یہ بتلایا گیا کہ ذکر و تلاوت کے وقت انسان پر ہیبت اور خوف کی کیفیت ہونا چاہئے، خوف اس کا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت اور عظمت کا حق ادا نہیں کرسکتے، ممکن ہے کہ ہم سے کوئی بےادبی ہوجائے، نیز اپنے گناہوں کے استحضار سے عذاب الہی کا خوف نیز انجام اور خاتمہ کا خوف کہ معلوم نہیں ہمارا خاتمہ کس حال پر ہونا ہے، بہرحال ذکر و تلاوت اس طرح کیا جائے جیسے کوئی ہیبت زدہ ڈرنے والا کیا کرتا ہے۔
یہی آداب دعا اسی سورة اعراف کے شروع میں بھی ایک آیت میں اس طرح آئے ہیں (آیت) اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً ، اس میں خیفة کے بجائے خفیة کا لفظ آیا ہے جس کے معنی آہستہ آواز سے ذکر کرنے کے ہیں، گویا ذکر و تلاوت کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ آہستہ پست آواز سے کیا جائے، لیکن اس آیت نے اس کے معنی بھی واضح کردیئے کہ اگرچہ آواز سے ذکر کرنا بھی ممنوع نہیں، مگر شرط یہ ہے کہ ضرورت سے زائد آواز بلند کرے، نیز اتنی بلند نہ کرے جس میں خشوع خضوع اور عاجزی و تضرع کی کیفیت جاتی رہے۔
آخر آیت میں ذکر و تلاوت کے اوقات بتلائے کہ صبح و شام ہونا چاہئے اس کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ کم از کم دن میں دو مرتبہ صبح اور شام ذکر اللہ میں مشغول ہونا چاہئے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صبح شام بول کر مراد تمام لیل و نہار کے اوقات ہوں جیسے مشرق مغرب بول کر سارا عالم مراد لیا جاتا ہے، اس صورت میں معنی آیت کے یہ ہوں گے کہ انسان پر لازم ہے کہ ہمیشہ ہر حال میں ذکر و تلاوت کا پابند رہے، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر وقت ہر حال میں اللہ کی یاد میں مشغول رہتے تھے۔
آخر آیت میں فرمایا (آیت) وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ ، یعنی اللہ کی یاد کو چھوڑ کر غفلت والوں میں شامل نہ ہوجانا کہ یہ بہت بڑا خسارہ ہے۔
دوسری آیت میں لوگوں کی عبرت و نصیحت کے لئے مقربان بارگاہ الہی کا ایک مخصوص حال بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ کے پاس ہونے سے مراد اللہ تعالیٰ کا مقبول ہونا ہے، جس میں سب فرشتے اور تمام انبیاء (علیہم السلام) اور صالحین امت شامل ہیں، اور تکبر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو بڑا آدمی سمجھ کر ان عبادات میں قصور نہیں کرتے بلکہ اپنے کو عاجز و محتاج سمجھ کر ہمیشہ اللہ کی یاد اور عبادت میں مشغول اور تسبیح کرتے رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے رہتے ہیں۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جن لوگوں کو دائمی عبادت اور یاد خدا کی توفیق ہوتی ہے تو یہ اس کی علامت ہے کہ وہ ہر وقت اللہ کے پاس ہیں اور اللہ تعالیٰ کی معیت ان کو حاصل ہے۔
Top