تعلیم و تبلیغ کرنے والوں کو خلوص میں ذکر اللہ اور توجہ الی اللہ بھی ضروری ہے
فاذا فرغت فانصب، والی ربک فارغب یعنی جب آپ ایک محنت یعنی دعوت حق اور تبلیغ احکام سے فارغ ہوں تو (دوسری) محنت کے لئے تیار ہو جایئے وہ یہ کہ نماز اور ذکر اللہ اور دعا و استغفار میں لگ جائیں۔ اکثر حضرات مفسرین نے اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے۔ بعض حضرات نے دوسری تفسیریں بھی لکھی ہیں مگر اقرب وہی ہے جو اوپر لکھی گئی۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی دعوت و تبلیغ اور خلق خدا کو راستہ دکھانا ان کی اصلاح کی فکر یہ آپ کی سب سے بڑی عبادت تھی مگر یہ عبادت بواسطہ مخلوق ہے کہ ان کی اصلاح پر توجہ دیں اور اس کی تدبیر کریں، آیت کا مقصود یہ ہے کہ صرف اس عبادت بالواسطہ پر آپ قناعت نہ کریں بلکہ جب اس سے فرصت ملے تو بلاواسطہ خلوت میں حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں اسی سے ہر کام میں کامیابی کی دعا کریں کہ اصل مقصود جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے وہ ذکر اللہ اور عبادت بلاواسطہ ہی ہے اور شاید اسی لئے پہلی قسم یعنی عبادت بالواسطہ سے فراغت کا ذکر فرمایا کہ وہ کام ایک ضرورت کے لئے ہے اس سے فراغت ہو سکتی ہے اور دوسرا کام یعنی توجہ الی اللہ ایسی چیز ہے کہ اس سے فراغت مومن کو کبھی نہیں ہو سکتی بلکہ اپنی ساری عمر اور توانائی کو اس میں صرف کرنا ہے۔
فائدہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ علماء جو تعلیم و تبلیغ اور اصلاح خلق کا کام کرنے والے ہیں ان کو اس سے غفلت نہ ونا چاہئے کہ انکا کچھ وقت خلوت میں توجہ الی اللہ اور ذکر اللہ کے لئے بھی مخصوص ہنا چاہئے جیسا کہ علماء سلف کی سیرتیں اس پر شاید ہیں اس کے بغیر تعلیم و تبلیغ بھی موثر نہیں ہوتی ان میں نور و برکت نہیں ہوتی۔
فائدہ۔ لفظ فانصب، نصب سے مشتق ہے جس کے اصلی معنے تعب اور تکان کے ہیں اس میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ عبادت اور ذکر اللہ اس حد تک جاری رکھا جائے کہ کچھ مشقت اور تکان محسوس ہونے لگے صرف نفس کی راحت و خوشی ہی پر اس کا مدارنہ رہے اور کسی وظیفہ اور معمول کی پابندی خود ایک مشقت اور تعجب ہے، خواہ کام مختصر ہی ہو۔
تمت سورة الانشراح والحمد للہ