Maarif-ul-Quran - Maryam : 51
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى١٘ اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں مُوْسٰٓى : موسیٰ اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا مُخْلَصًا : برگزیدہ وَّكَانَ : اور تھا رَسُوْلًا : رسول نَّبِيًّا : نبی
اور کتاب میں موسیٰ کا بھی ذکر کرو بیشک وہ (ہمارے) برگزیدہ اور پیغمبر مرسل تھے
قصۂ چہارم حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام قال اللہ تعالیٰ ۔ واذ کر فی الکتٰب موسٰٓی۔۔۔ الیٰ اخاہ ھٰرون نبیا۔ یہ چوتھا قصہ موسیٰ (علیہ السلام) کا ہے۔ خلیل اللہ کے قصے کے بعد کلیم اللہ کا قصہ ذکر فرماتے ہیں۔ اس قصہ میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی پانچ صفتیں ذکر فرمائیں۔ (1) مخلص یعنی خدا کے منتخب اور برگزیدہ بندے تھے۔ (2) رسول اور نبی تھے۔ (3) ان سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا۔ (4) ان کو اپنا مقرب بنایا۔ (5) ان کی فرمائش سے ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو نبی بنایا۔ چناچہ فرماتے ہیں : اور اے نبی ﷺ اس کتاب یعنی قرآن میں موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ پڑھ کر لوگوں کو سنائیے۔ بیشک وہ خدا کے چیدہ اور برگزیدہ خالص اللہ کے لیے چنے ہوئے تھے۔ جن کی ذات وصفات میں اور اعمال و نیات میں غیر اللہ کا شائبہ بھی نہ تھا۔ اور تھے وہ رسول اور نبی۔ ” رسول “ کے معنی یہ ہیں کہ وہ فرستادہء خدا وندی تھے اور نبی کے معنی یہ ہیں کہ مخلوق کو احکام خدا وندی سے آگاہ کرنے والے اور خبر دینے والے تھے۔ معتزلہ کے نزدیک ہر نبی رسول ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک دونوں متلازم ہیں اور جمہور اہل سنت کے نزدیک نبی عام ہے اور رسول خاص ہے۔ رسول وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خصوصی امتیاز حاصل ہو یعنی کوئی مستقل کتاب یا کوئی مستقل شریعت عطا ہوئی ہو یا مکذبین اور معاندین کے مقابلہ میں معجزات قاہرہ دے کر بھیجے گئے ہوں۔ اور ” نبی “ وہ ہے کہ جو اللہ کی طرف سے خبر دے گو اس کے ساتھ کوئی مستقل کتاب اور مستقل شریعت نہ ہو۔ بہرحال نبی عام ہے اور رسول خاص ہے۔ بظاہر مناسب یہ تھا کہ پہلے عام کو ذکر کرتے اور پھر خاص کو ذکر کرتے لیکن فاصلہ یعنی قافیہ کی رعایت سے خاص کو عام یعنی نبی پر مقدم کیا جیسا کہ طٰہٰ میں رب ھٰرون و موسیٰ میں فاصلہ کی رعایت سے ہارون کو موسیٰ (علیہ السلام) پر مقدم کیا۔ اور ہم نے موسیٰ کو کوہ طور کے دائیں جانب سے آواز دی اور یہ نداء نداء رسالت تھی۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے مصر کو واپس آرہے تھے اور ہم نے ان کو قریب کرلیا راز کی باتیں سنانے کے لیے۔ اور بلا واسطہ ان سے کلام کرنے کے لیے۔ زجاج (رح) کہتے ہیں کہ آیت میں قرب سے قرب مسافت اور قرب مکانی مراد نہیں بلکہ قرب منزلت اور قرب مرتبہ مراد ہے۔ اور ہم نے اپنی رحمت اور مہربانی سے ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو نبی بنا کر عطا کیا۔ یعنی ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ دعا واجعل لی وزیرا من اھلی قبول کی اور ان کی دعا کے مطابق ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو نبی بنا دیا۔ پس اصل ہبہ اور اصل عطیہ نبوت ہارون (علیہ السلام) کا تھا کہ ان کی دعا سے ہارون (علیہ السلام) کو نبوت ملی نہ کہ ذات ہارون (علیہ السلام) کا کیونکہ ہارون (علیہ السلام) تو پہلے سے موجود تھے اور موسیٰ (علیہ السلام) سے عمر میں بڑے تھے۔
Top