Tafseer-e-Baghwi - At-Tawba : 1
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ
بَرَآءَةٌ : بیزاری (قطعِ تعلق) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖٓ : اور اس کا رسول اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے عٰهَدْتُّمْ : تم سے عہد کیا مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
(اے اہل اسلام اب) خدا اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے مشرکوں سے جن سے تم نے عہد کر رکھا تھا بیزاری (اور جنگ کی تیاری ہے)
فضائل و خواص سورة توبہ خاصیت آیت 32‘ 33 یریدون ان یطفئوا نور اللہ بافوا ھھم ویابی اللہ الا ان یتم نورہ ولو کرہ الکفرون ھوالذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون اس آیت کو شیشہ کے نئے گلاس میں لکھے اور اسے عود و عنبر کی دھونی دے پھر اسے یاسمین کے خالص عطر سے دھوئے اور سبز شیشہ کے برتن میں اونچی جگہ رکھ دے جب ضرورت پڑے اس عطر کو اپنے دونوں ابرئوں کے درمیان لگالے تو اسے لوگوں میں محبت اور عزت و مرتبہ ملے گا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس آیت کو ہرن کے چمڑے پر زعفران اور عرق گلاب سے لکھے اور کستوری کی دھونی دے۔ اس کو جو آدمی اپنے دائیں بازو پر باندھے گا اسے لوگوں میں محبت و عزت اور مرتبہ و دبدبہ حاصل ہوگا۔ خاصیت آیت 46 ولو ارا دوا الخروج لاء عدوا لہ عدۃ ولکن کرہ اللہ انبعاثھم فثبطھم وقیل اقعدوا مع القعدین اس آیت کو ریشم کے گول کاٹے ہوئے ٹکڑے میں لکھے جو ٹکڑا مہینہ کے اول دنوں میں کاٹا گیا ہو اور آیت کے ارد گرد بھاگنے والے یا چور کا نام اور اسکی ماں کا نام لکھے ( فلاں بن فلانۃ) پھر اسے لیکر شہر سے باہر ایسی جگہ چلا جائے جہاں اسے کوئی نہ دیکھے اور اس گول ٹکڑے کے درمیان میں نئی میخ گاڑے پھر اسے مٹی سے چھپا دے تو بھگوڑا اور چور و اپس آجائے گا۔ خاصیت آیت 129 فان تولوا فقل حسبی اللہ لآ الہ الا ھو ط علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم جمعہ کی رات میں آدھی رات کوا سے تین سو مرتبہ پڑھے اور ہر بار کے آخر میں کہے۔ یارب حسبی علی فلان بن فلانۃ اعطف قلبہ وذالہ الی تو بہت جلد اس کے دل میں اللہ تعالیٰ اس پر شفقت و محبت ڈال دیں گے اور اسے اس کا مسخر و تابع بنادیں گے۔ یہ مجربات میں سے ہے۔ حضرت مولانا عاشق الٰہی میرٹھی (رح) کی نایاب قرآنی تفسیر ” تفسیر میرٹھی “ سے منتخب آیات کے فضائل و خواص فضیلت و خاصیت سورة اعراف فضائل۔ جو اس سورت کو پڑھے گا قیامت کو اللہ پاک اس کے اور شیطان کے درمیان پردہ حائل کردے گا آدم (علیہ السلام) اس کی شفاعت کریں گے۔ فضیلت و خاصیت سورة انفال و توبہ فضائل۔ حضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ جو شخص سورة انفال اور توبہ پڑھا کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا اور گواہی دوں گا کہ وہ نفاق سے مبرا ہے اور اس کا پڑھنے والا ہر منافق و ہر منافقہ کی تعداد پر دس دس نیکیاں پائے گا ‘ جب تک دنیا میں زندہ رہے گا عرش اور اس کے اٹھانے والے فرشتے اس کے لیے استغفار کرتے رہیں گے۔ سورۃ التوبۃ سورۃ برأت کے شروع میں بسم اللہ نہ ہونے کی وجہ مقاتل (رح) فرماتے ہیں کہ یہ ساری سورت مدنی ہے سوائے آخر کی دو آیتوں کے۔ سعید بن جبیر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ابن عباس ؓ سے سورة توبہ کے بارے میں پوچھا تو آپ ؓ نے فرمایا کہ یہ رسوا کرنے والی ہے۔ مشرکین کے بارے میں نازل ہوتی رہی یہاں تک کہ ان کو گمان ہونے لگا کوئی ان میں سے کسی کا تذکرہ اس سے نہ بچ سکے گا۔ پھر میں نے پوچھا سورة الانفال ؟ تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا یہ سورة بدر ہے۔ میں نے سوال کیا سورة حشر ؟ فرمایا تو اس کو سورة بنو نضیر کہہ لے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان ؓ سے سوال کیا کہ سورة انفال مثانی سورتوں میں سے ہے اور سورة برأۃ مئین میں سے ہے آپ کو کس چیز نے ابھارا کہ آپ ؓ نے ان دونوں سورتوں کو ملا دیا اور ان کے درمیان بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نہیں لکھی اور تم نے اس کو سبع طوال میں رکھ دیا ؟ تو حضرت عثمان ؓ نے فرمایا کہ آپ (علیہ السلام) پر قرآن مجید کی سورتیں ہر وقت اترتی رہتی تھیں۔ جب بھی کوئی آیت اترتی تو آپ کاتبین میں سے کسی کو بلاتے اور فرماتے کہ اس آیت کو اس سورت میں رکھ دو جس میں ان ان باتوں کا تذکرہ ہے۔ مدینہ میں اور سورة برأۃ آخر میں نازل ہوئی ہے اور اس کے مضامین سورة انفال سے ملتے جلتے ہیں اور آپ (علیہ السلام) دنیا سے تشریف لے گئے اور ہمیں یہ بیان نہیں کیا کہ یہ سورة توبہ انفال کا حصہ ہے۔ اسی وجہ سے میں نے ان دونوں کو ملا دیا اور ان کے درمیان بسم اللہ الرحمٰن الرحیم بھی نہیں لکھی اور اس کو سبع طوال میں رکھ دیا۔ (آیت 1-2) تفسیر 1” برآء ۃ مین اللہ و رسولہ “ یعنی یہ اللہ کی طرف سے برأت ہے اور یہ مصدر ہے نشاۃ ار دناء ۃ کی طرح۔ مفسرین رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ تبوک کی طرف روانہ ہوئے تو منافقین جھوٹی خبریں پھیلانے لگے اور مشرکین رسول اللہ ﷺ سے کئے ہوئے عہد توڑنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے عہد توڑنے کا حکم دیا اور یہ عہد توڑنے کا حکم اس آیت میں ہے ” واما تخافن من قوم خیانۃ “ الآیۃ زجاج فرماتے ہیں کہ براء ۃ یعنی اللہ اور اس کے رسول ﷺ ان کو عہد دینے اور اس کے پورا کرنے سے بری ہیں۔ جب خود انہوں نے اس کو توڑ دیا ہے ” الی الذین عھدتم من المشرکین “ خطاب نبی کریم ﷺ کے صحابہ کو ہے اگرچہ نبی کریم ﷺ نے ہی عہد کیا تھا اس لئے کہ صحابہ کرام ؓ اس عہد پر راضی تھے تو گویا انہوں نے خود کیا۔
Top