Tafseer-e-Madani - Yunus : 87
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰى وَ اَخِیْهِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُیُوْتًا وَّ اجْعَلُوْا بُیُوْتَكُمْ قِبْلَةً وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَاَوْحَيْنَآ : اور ہم نے وحی بھیجی اِلٰى : طرف مُوْسٰى : موسیٰ وَاَخِيْهِ : اور اس کا بھائی اَنْ تَبَوَّاٰ : کہ گھر بناؤ تم لِقَوْمِكُمَا : اپنی قوم کے لیے بِمِصْرَ : مصر میں بُيُوْتًا : گھر وَّاجْعَلُوْا : اور بناؤ بُيُوْتَكُمْ : اپنے گھر قِبْلَةً : قبلہ رو وَّاَقِيْمُوا : اور قائم کرو الصَّلٰوةَ : نماز وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دو الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
اور ہم نے وحی بھیجی موسیٰ اور اس کے بھائی کی طرف، کہ اپنی قسم کے لئے مصر میں کچھ گھر بنا لو، اور اپنے گھروں کو مسجد قرار دے دو ، اور نماز کی پابندی کرو، اور خوشخبری سنا دو ایمان والوں کو،1
145 ۔ اپنے گھروں کو مسجدیں بنانے کی ہدایت و تلقین : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے وحی بھیجی موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف کہ اپنی قوم کی لیے مصر میں کچھ گھر بناؤ اور اپنے گھروں کو مسجد قرار دے دو ۔ کیونکہ اپنے کنیساؤں میں وہ فرعون اور اس کی قوم کے ڈر کی وجہ سے نماز نہیں پڑھ سکتے تھے۔ اس لیے ان کو یہ حکم دیا گیا۔ (ابن کثیر، قرطبی، صفوہ، محاسن، اور جامع البیان وغیرہ) ۔ سو اس سے نماز کی اہمیت اور اس کی تاثیر کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی قوم کو اس کی پابندی اور التزام کا اس طرح حکم دیا جاتا ہے۔ سو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غلامی کے بندھنوں کو توڑنے اور اس کی زنجیروں کو کاٹنے میں بھی اس عبادت مقدسہ کا خاص اثر ہے اور اس کی وجہ بھی ظاہر ہے کہ اس سے انسان کو حضرت۔ جل مجدہ۔ کی توجہ اور عنایت حاصل ہوتی ہے جو اس کو خاص قوت سے سرفراز کردیتی ہے۔ اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ مصر کے مختلف حصوں میں کچھ مقام نماز باجماعت کے لیے مخصوص کردیں جن میں بنی اسرائیل مقررہ وقتوں میں نماز کے لیے جمع ہوا کریں اور تم اپنے گھروں کو قبلہ قرار دیکر نماز باجماعت کا اہتمام کرو۔ سو یہ بعینہ اسی طرح کی ہدایت ہے جس کی ہدایت نبی ﷺ کو مکہ کی پر مصائب زندگی میں دی گئی تھی۔ سو صبر و ہدایت اور نماز کے درمیان باہم خاص تعلق اور ربط و ضبط ہے۔ اس لیے ان کے بارے میں خاص اہتمام و انتظام کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے۔ والحمد للہ جل و علا۔ 146 ۔ نماز ایک انقلاب آفرین عبادت : سو ان کو مزید ہدایت فرمائی گئی کہ پابندی کرو نماز کی کہ اپنے خالق ومالک سے قرب اور اس کی نصرت و مدد حاصل کرنے کا سب سے بہتر اور سب سے عمدہ و کارگر ذریعہ نماز ہی ہے۔ اسی لیے امت محمدیہ کو بھی اس کی تلقین وتعلیم فرمائی گئی کہ تم صبر اور نماز کے ذریعہ اللہ کی مدد حاصل کرو۔ ارشاد ہوتا ہے (اسْتَعِيْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ ) اور آنحضرت ﷺ کو جب کوئی مشکل پیش آتی تو آپ نماز ہی کی طرف لوٹتے اور رجوع فرماتے تھے۔ سو نماز کے اندر اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت کو بندے کی طرف متوجہ کرنے کی خاص تاثیر ہے۔ اور یہ ایک انقلاب آفرین عبادت ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ نماز قائم کرو ایک ہی قبلے کی طرف متوجہ ہوکر۔ کیونکہ قبلہ اور جہت کا اتحاد و اتفاق دلوں کے اتحاد و اتفاق کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے نماز کے لیے تسویہ صفوف کے بارے میں ارشاد فرمایا " ولا تختلفوا فتختلف قلوبکم " یعنی تم آپس میں اختلاف نہیں کرنا کہ اس کے نتیجے میں تمہارے دلوں کے اندر اختلاف پیدا ہوجائے "۔ والعیاذ باللہ۔ اور ان لوگوں کے اس قبلے کے بارے میں حضرات مفسرین کرام کے درمیان اختلاف واقع ہوا ہے جس کے استقبال اور اس کی طرف متوجہ ہونے کا ان لوگوں کو حکم دیا گیا تھا۔ لیکن یہ بات کسی نص کے بغیر معلوم نہیں ہوسکتی۔ اور یہاں پر ایسی کوئی نص موجود نہیں۔ (تفسیر المنار، اور تفسیر المراغی وغیرہ) اس لئے اس بارے میں کسی بات سے متعلق قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ 147 ۔ ایمان والوں کے لیے خوشخبری سنانے کا حکم و ارشاد : سو ارشاد فرمایا اور صاف وصریح ارشاد فرمایا گیا کہ خوشخبری سنا دو ایمان والوں کو کہ دنیا میں بھی بالآخر کامیابی انہی کو ملے گی اور آخرت میں بھی جنت اور اس کی سدا بہار نعمتوں سے سرفرازی انہی کو نصیب ہوگی۔ بشرطیکہ وہ دولت ایمان سالم و پختہ میں ہوں۔ سو ایمان و یقین کی دولت دارین کی سعادت و سرخروئی کی شاہ کلید ہے اور اس سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے۔ اور اس عام بشارت میں عموم بشارت کے علاوہ خاص طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے اہل ایمان کے لیے بشارت ہے کہ انہوں نے جو اللہ پر بھروسہ کرکے اس کے حضور دعا کی تھی کہ ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ و آزمائش نہ بنانا اور ہمیں اپنی رحمت و عنایت سے ان کافر لوگوں سے نجات دے دے۔ سو ان کے لیے بشارت ہے کہ ان کی یہ دعا قبول فرمائی گئی۔ ان کو ان ظالموں سے نجات بھی دے دی گئی اور ان کے اس سب سے بڑے طاغی اور سرکش دشمن فرعون اور اس کے حواریوں کی ہلاکت اور تباہی کا سامان بھی کردیا گیا جیسا کہ آگے آیت نمبر 92 میں آرہا ہے اور اس خوشخبری کے سنانے کا حکم و ارشاد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فرمایا گیا۔ کیونکہ نبوت و رسالت میں اصل وہی تھے اور حضرت ہارون (علیہ السلام) ان کے تابع تھے۔ جن کو ان ہی کی دعا و درخواست پر شرف نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا گیا تھا۔ (محاسن التاویل، فتح القدیر، قرطبی، مراغی اور المنار وغیرہ) سو ایمان و یقین کی دولت دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرنے والی دولت ہے۔ اس کے بغیر محرومی ہی محرومی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top