Baseerat-e-Quran - Yunus : 87
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰى وَ اَخِیْهِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُیُوْتًا وَّ اجْعَلُوْا بُیُوْتَكُمْ قِبْلَةً وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَاَوْحَيْنَآ : اور ہم نے وحی بھیجی اِلٰى : طرف مُوْسٰى : موسیٰ وَاَخِيْهِ : اور اس کا بھائی اَنْ تَبَوَّاٰ : کہ گھر بناؤ تم لِقَوْمِكُمَا : اپنی قوم کے لیے بِمِصْرَ : مصر میں بُيُوْتًا : گھر وَّاجْعَلُوْا : اور بناؤ بُيُوْتَكُمْ : اپنے گھر قِبْلَةً : قبلہ رو وَّاَقِيْمُوا : اور قائم کرو الصَّلٰوةَ : نماز وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دو الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
اور ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف وحی کی تم دونوں اپنی قوم کے لئے شہر میں کوئی گھر بنا لو اور تم اپنے گھروں میں نماز پڑھنے کی جگہ بنا لو اور نماز کو قائم کرو اور اہل ایمان کو خوش خبری سنا دو ۔
لغات القرآن آیت نمبر 87 تا 89 اوحینا (ہم نے وحی کی) تبوا (تم دونوں ٹھکانا بنا لو، مقرر کرلو اقیموا (تم قائم کرو) زینۃ (دنیاوی زیب وزینت) سبیل (راستہ) اطمس (تباہ کر دے) اشدد (سختی کر) حتی یروا (جب تک وہ دیکھ نہ لیں) اجیبت (قبول کرلی گئی) دعوتکما (تم دونوں کی دعا استقیما (تم دونوں ثابت قدم رہنا ) لاتتبغن (تم دونوں پیروی نہ کرنا) تشریح : آیت نمبر 87 تا 89 جب سے حضرت موسیٰ نے اعلان نبوت فرما کر اللہ کے حکم سے کچھ معجزات دکھائے اس وقت سے فرعون کو ہر روز ذلت و روسائی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ، خاص طور پر فرعون کے بھرے دربار میں تمام جادوگروں کا اسلام قبول کر کے فرعون کے ظلم و ستم سے بےنیاز ہوجانا فرعون کی اتنی بڑی شکست تھی جس سے وہ ایک زخمی سانپ بن کر بنی اسرائیل کے ہر شخص کو تباہ و برباد کرنے پر تل گیا تھا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ بنی اسرائیل اور فرعون کی سلطنت کے کمزور ترین لو اس طرح اس کے مقابلے میں کھڑے ہوجائیں گے۔ اس کے بعد فرعون نے ظلم و ستم کی وہ انتہا کردی جس پر انسانیت بھی شرما کر رہ گئی۔ اس نے بنی اسرائیل کے ہر لڑکے کو پیدا ہوتے ہی ذبح کرنے کا حکم دے دیا اور لڑکیوں کو زندہ رہین دیا گیا تاکہ بنی اسرائیل کی نسل ہی ختم ہو کر رہ جائے۔ اس نے بنی اسرائیل کی تمام عباتگاہوں اور گھروں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا تھا۔ فرعونیوں کے ان بےپناہ مظالم کے سامنے بنی اسرائیل اتنے بےبس ہو کر رہ گئے تھے کہ ہر شخص مصر سے بھاگ جانا چاہتا تھا۔ اس مایوسی میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کی طرف وحی بھیجی کہ وہ ظلم و جبر کم قابلے میں صبر و استقامت سے جمے رہیں اور قوم کو ادھر ادھر منتشر نہ ہونے دیں۔ اپنے بکھرے ہوئے شیرازے کو اکٹھا کر کے کچھ گھروں کو عبادت کے لئے مخصوص کرلیں اور ان میں نمازوں کے نظام کو قائم کریں۔ اکٹھے ہو کر نمازیں ادا کریں تاکہ سب میں اتحاد و اتفاق کی فضا پیدا ہوجائے اور اللہ پر بھروسے اور اعتماد میں اور اضافہ و ترقی ہوجائے۔ عمل کا یہی انداز ان تباہ حال بنی اسرائیل کے لئے خوش خبری سے کم نہ تھا۔ اسی لئے فرمایا کہ جب قوم اللہ پر بھروسے، عبادت ، توکل اور ایمان کی پختگی پر آجائے تو اے موسیٰ ان اہل ایمان کو ہر طرح کی کامیابیوں کی خوش خبری دیدیجیے۔ فرعون اور آل فرعن کے ظلم و ستم کو دیکھ کر حضرت موسیٰ رنجیدہ ہوگئے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا الٰہی ! یہ فرعن اور اس کا ساتھ دینے والے جو دنیا کی تمام راحتوں، آرام اور دولت سے نوازے گئے ہیں ۔ ان پر ناز کرتے ہوئے انسانیت سوز مظالم کر رہے ہیں اے اللہ اگر یہ ایمان ہیں لاتے اور لوگوں کو اسی طرح گمراہ کرتے رہیں گے تو اے اللہ ! ان ظالموں کے ہاتھوں سے وہ مال و دولت چھین لے جو انسانیت پر ظلم و ستم کا ذریعہ بن رہا ہے۔ جب تک یہ ایمان نہ لائیں اس وقت تک ان پر اپنے عذاب کو مسلط کئے رکھے گا۔ اللہ تعالیٰ جو اپنے پیغمبروں کی دعاؤں کو رد نہیں کرتا اس نے فرمایا کہ اے موسیٰ تمہاری دعا قبول کرلی گئی۔ اب اس ظالم قوم سے اللہ انتقام لے گا۔ فرمایا کہ اے موسیٰ آپ اور آپ کے ماننے والے ثابت قدمی سے جمے رہیں اور وہ راستہ اختیار نہ کریں جو دوسرے لاعلم لوگوں نے اختیار کر رکھا ہے۔ ان آیات میں حضرت موسیٰ کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے چند اصولی باتیں ارشاد فرما دی گئی ہیں : 1) اپنے بڑوں اور رہبروں کا کہنا ماننا۔ 2) صبر و تحمل سے ہر ظلم و تم کا مقابلہ کرنا 3) تنظیم قائم کرنا۔ 4) بکھرے ہوئے شیرازے کو جمع کرنے کیلئے مسجدوں کا قائم کرنا۔ 5) نماز با جماعت کا اہتمام کرنا۔ 6) ہر حال میں اللہ پر ہی بھروسہ کرنا اسی سے مدد مانگنا۔ 7) عبادت و بندگی میں کوتاہی نہ کرنا۔ یہ وہ مضبوط ہتھیار ہیں جن سے اللہ و رسول کے دشمنوں کو شکست دینا بہت آسان ہے ۔ جس قوم میں اپنے بڑوں کا احترام نہ کیا جائے اور اپنے معاملات کے لئے تنظیم سے کام نہ لیا جائے اس وقت تک کسی کامیابی کا تصور ممکن نہیں ہے۔ ہر تحریک کی جانب تنظیم ہی ہوا کرتی ہے لیکن جب مضبوط اور مربوط تنظیم کے لے کوئی مرکز نہ ہو وہ تنظیم اپنا اثر نہیں دکھا سکتی۔ اہل ایمان کی تنظیم کے لئے مسجدیں بنانا اور ان میں عبادت و بندگی کے نظام کو قائم کرنا بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ حضرت موسیٰ کے واقعہ ہی میں غور کر لیجیے کہ ان مٹھی بھر مسلمانوں کا مقابلہ فرعون اس کے سرداروں اور حکومتی مظالم سے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ صبر و ضبط اور تنظیم سے اس کا مقابلہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب مسجدیں بنا کر ان میں نمازوں کے نظام کو قائم کیا جائے۔ یہاں تک فرمایا کہ اگر فی الحال مسجدیں قائم کرنا ممکن نہ ہو تو چند گھروں کو عبادت کر لئے مخصوص کرلیا جائے تاکہ ملت کو ایک رکھنے اور ان کو ایک مرکز سے وابستہ رکھنے کی کوشش کی جاسکے۔ دراصل مساجد ہی مسلمانوں کے دین و ایمان کی حفاظت کا بہترین ذریعہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مکہ مکرمہ کے کافروں اور مشرکوں کے ظلم و ستم کے باوجود ”’ ار اقرم “ کو جو حضرت ارقم کا گھر تھا مسجد قرار دیا اور اس عبادت و بندگی کے نظام کو قائم فرمایا۔ جب آپ نے ہجرت فرمائی تو مدنیہ منورہ میں آپ نے مسجد قبا کو اپنا مرکز بنایا اور بہت تھوڑے عرصے میں مسجد نبوی کی بنیاد رکھ دی گی۔ پھر اسلام کے تمام نظام کی بنیاد مسجد کو بنا دی گیا۔ یہی مساجد ہماری عدالتیں فوجی چھائونیاں اور تمام معاملات کا مرکز تھیں۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ جب تک ہمارے دین کے تمام کاموں کے مرکز مساجد تھیں تو اسلام کا سیدھا سچا اور سادہ نظام اسلام کی روح کے مطابق چلتا رہا لیکن جب جین اور اس کے تمام معاملات مسجدوں سے نکل کر بلند وبالا عمارتوں اور حکومتی ایوانوں میں پہنچائے اس وقت سے رسم اذاں تو رہ گئی لیکن روح بلالی نہ رہی ” آج بھی اگر ہمیں کامیابی نصیب ہوگی تو ہمیں اسی مسجد کے نظام کی طرف لوٹنا ہوگا جس میں ہماری قوم کی زندگی اور اس کی کامیابی پوشیدہ ہے۔
Top